آیت اللہ بہجت کی صہیونیت مخالف سرگرمیاں
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ بہجت عصر حاضر کے ایک معروف شیعہ مرجع تقلید تھے کہ جن کا تقویٰ اور عرفان ہر عام و خاص کا ورد زبان تھا آپ معروف و مشہور عارف ’’سید علی آقا قاضی‘‘ کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔ بظاہر آپ کی شخصیت معنویت اور للٰہیت میں ڈوبی ہوئی تھی اور آپ کو دیکھ کر کوئی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ آپ علمی اور دینی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی سرگرم ہوں گے۔ لیکن آپ کے دروس اور وعظ و نصیحت کے جلسات میں عالم اسلام اور مسلمانوں کے حالات کی طرف توجہ واضح نظر آتی تھی، بطور مثال آپ مسلمانوں کی مشکلات کی بنیادی وجہ دو عظیم الہی منابع فیض یعنی قرآن و عترت سے دوری سمجھتے تھے اور عالم اسلام کے سیاسی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے: ’’جو کچھ مسلمانوں پر آفتیں پڑ رہی ہیں قرآن اور عترت سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ رضا خان نے شیعہ مملکت کو بیچا، مصطفیٰ کمال نے عثمانی اسلامی مملکت کو فروخت کیا اور ابن سعود نے حجاز کو بیچا جس کی وجہ سے اسلامی ممالک ذلیل و خوار ہوئے، امریکہ اور برطانیہ روئے زمین کی خبیث ترین موجودات ہیں۔ بلکہ یہ درندہ صفت اور وحشی ترین لوگ ہیں کہ انسان کا نام انہیں دینا بھی مشکل ہے‘‘۔
آیت اللہ بہجت اور مزاحمتی محاذ
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں آیت اللہ بہجت کو حزب اللہ کا معنوی باپ قرار دیا۔ سید حسن نصر اللہ کی آیت اللہ بہجت سے پہلی ملاقات ۱۹۸۵ میں ہوئی جب سید حسن نصر اللہ ۲۵ سال کے تھے۔ انہوں نے شہید سید عباس موسوی کی سربراہی میں ایک وفد کے ہمراہ آیت اللہ بہجت سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
سید حسن نے اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا: ’’ درحقیقت حزب اللہ کے سب عہدیدار اور کارکنان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے رہنمائی حاصل کی اور آپ نے بھی بہت اچھے سے ہماری رہنمائی کی۔ البتہ امام خمینی(رح) کے انتقال کے بعد اور ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری کے دور میں یہ رابطہ زیادہ قریبی ہو گیا۔ اس لیے کہ ہم دیکھتے تھے کہ آیت اللہ خامنہ ای جب بھی زیارت کے لیے قم تشریف لے جاتے تھے انتہائی شوق و ذوق سے آیت اللہ بہجت سے ملاقات کرتے تھے اور آپ سے مشورہ لیتے تھے۔ لہذا ہم جو اس رہبر کے پیروکار ہیں ہماری تکلیف بھی معلوم ہے۔ ہم جب آیت اللہ بہجت سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے لبنان کے حالات کی رپورٹ انہیں دیتے تھے اور آپ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ آپ ایمان، تقویٰ، مستحکم عقائد اور عمل کی تاکید کرتے تھے۔
یہاں تک کہ ۳۳ روزہ جنگ میں ایک برادر نے قم سے آیت اللہ بہجت کا پیغام ہمیں دیا کہ جس میں آپ نے ہمیں مخاطب کر کے کہا تھا: ’’مطمئن رہیں آپ جنگ میں کامیاب ہوں گے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خبر جنگ کے پہلے ہفتے میں ہمیں ملی کہ تب ہم کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام بھی ہمیں موصول ہوا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کی صورتحال جنگ احزاب کے مشابہ ہے جان لیں کہ قرآنی آیات کی بنا پر آپ اس جنگ میں کامیاب ہوں گے اور آپ علاقے کی ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوں گے‘‘ ویسا ہی ہوا جیسا انہوں نے کہا تھا۔
در حقیقت عام لوگوں کی سوچ کے برخلاف آیت اللہ العظمیٰ بہجت گوشہ نشین اور دنیا سے کٹے ہوئے نہیں تھے۔ بلکہ آپ علاقے کے سیاسی اور ثقافتی حالات سے آگاہ تھے اور انہیں اہمیت دیتے تھے۔