امام خمینی (رح)

امام خمینی (رح) کی نظر میں باطنی شیطان

سنجیدگی کے ساتھ امام خمینی (رح) کی ایک تنبیہ جسے آپ نے بار بار تاکید کی ہے وہ نفسانی خواہش اور ظاہری اور باطنی شیطان کی طرف توجہ ہے

امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں

امام خمینی (رح) کی نظر میں باطنی شیطان

ہمارے خطباء و ذاکرین، مولفین و مصنفین خواہ کتنے ہی اچھے ہوں اور بہت زیادہ پابند اور ذمہ دار ہوں یہ خیال نہ کریں کہ باطنی برائیوں سے پاک ہوگئے ہیں۔ باطنی شیطان سے پاک ہوگئے ہیں۔ (صحیفہ امام، ج 14، ص 149)

سنجیدگی کے ساتھ امام خمینی (رح) کی ایک تنبیہ جسے آپ نے بار بار تاکید کی ہے وہ نفسانی خواہش اور ظاہری اور باطنی شیطان کی طرف توجہ ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) درس اخلاق اور اپنے اخلاقی نوشتوں میں شیطان، اس کے مکر و فریب اور حیلہ و بہانہ کی طرف اشارہ کرتے اور اس سے بچنے کی تاکید کرتے تھے۔ آپ اپنی تقریروں میں بالخصوص جب آپ بعض مسئولین، صاحبان فکر و نظر اور معاشرہ و سماج میں موثر لوگوں کے درمیان کرتے تو اس کی جانب کافی توجہ دلاتے اور اشارہ کرتے تھے کہ آپ حضرات اپنے بیان، قلم اور رفتار و کردار کی جانب متوجہ رہیں۔ جیسا کہ آپ سے اس بیان میں نقل ہوا ہے، سے بخوبی واضح ہے کہ آپ نے بعض افراد کے اچھے ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ خیال نہ کریں کہ شیطان اور آپ کی نفسانی خواہشان نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اور آپ اس کے چنگل سے آزاد ہوگئے ہیں۔

یہ جملہ بہت ہی دقیق اور انسان کی سرنوشت ہے کہ فرماتے ہیں: توجہ کریں کہ انسان کا باطنی شیطان آخری عمر تک اس کے ہمراہ ہوتا ہے، انسان کو کبھی آزاد نہیں چھوڑتا۔ کبھی یہ شیطان کچھ ایسا کام کردیتا ہے کہانسان خود کو ہلاک کردیتا ہے۔ (صحیفہ امام، ج 14، ص 149)

یہ تمام انسانوں اور افراد بالخصوص ان لوگوں کے لئے تنبیہ ہے جو معاشرہ میں زیادہ موثر کردار رکھتے ہیں تا کہ وہ اپنے ظاہری اور باطنی شیطان سے دھوکہ نہ کھائیں، اس کے فریب میں نہ آئیں، اپنی رفتار و گفتار پر نظر رکھیں، مقام و منصب، مال و دولت، کثرت اولاد  و افراد، چاہنے والوں اور عاشقوں کی زیادتی سے دھوکہ نہ کھائیں؛ کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان، نماز و روزہ اور دیگر واجبات کا پابند، محرمات اور ناپسندیدہ امور سے دور رہنے والا انسان، جاه و مقام، منصب و عہدہ، مال و دولت اور کثرت اولاد اور ماننے والوں کی کثیر جماعت سے مغرور و متکبر ہوجاتا ہے اور پھر خود سے غافل اور بیگانہ و بے خبر ہو کر لاشعوری طور پر گمراہی کے اعمال و کرتوت کرنے لگتا ہے۔ خدا سے دور ہوتا جاتا ہےاور اس کا سارا ہم و غم دنیا اور دنیاوی لذتیں، اس کی نت نئی ترقیاں اور زرق و برق، چمک و دمک اس کے نگاہ پر پردہ کی طرح حائل ہوجاتی ہے اور وہ دین اور دینی و الہی اصول و قوانین سے دور سب کچھ دنیا کو سمجھ بیٹھتا ہے اور اسی کے لئے اپنی قیمتی عمر ضائع کر دیتا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی انسان گذرے ہیں اور موجود ہیں کہ ان کے پاس دنیا و مافیھا ہونے کے باوجود اسے ذرہ برابر اہمیت نہیں دی اور نہیں دیتے اور اس کو نظر انداز کرکے دنیا سے گذر گئے ہیں۔یہ سب کچھ حقائق ہیں۔ ان سے انکار ناممکن ہے۔ اس کے باوجود دنیا و آخرت کی کھیتی کہی گئی ہے۔ اسی دنیا میں رہ کر انسان اپنی آخرت کو آباد کرسکتا ہے، اپنی عقبی سنوار سکتا ہے، اپنی جنت بنا سکتا ہے۔ خود کو جہنم اور اس کے شعلوں سے بچا سکتا ہے۔

 

ای میل کریں