امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت
حضرت امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کے بارے میں دو روایت ہے ایک روایت کے مطابق 7/ صفر ہے اور ایک روایت کے مطابق 28/ صفر ہے جس نے پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) کی شہادت ہوئی ہے۔ جو لوگ 28/ صفر کی روایت کو مانتے ہیں ان کی دلیل شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طبرسی (رح) کی نقل پر اعتماد ہے۔ اور جو لوگ 7/ صفر کو مانتے ہیں وہ شہید اول، کفعمی، شیخ بہائی، علامہ مجلسی، مرحوم صاحب جواہر، شیخ کاشف العظاء اور محدث قمی کی نقل پر اعتماد کرتے ہیں۔ لہذا 7/ صفر کے راویوں کی تعداد اور اعتبار کے پیش نظر یہ قول پہلے قول کی نسبت زیادہ قوی ہے۔
امام حسن مجتبی (ع) رسولخدا (ص) کے بڑے نواسہ چھوٹے معصوم خلیفہ اور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ 15/ رمضان کی شب سن 3/ ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت علی (ع) مادر گرامی رسولخدا (ص) کی نور نظر حضرت فاطمة الزہراء (س) ہیں۔
آپ نے تقریبا 7/ سال رسولخدا (ص) کی زندگی کا دور دیکھا ہے۔ پھر آنحضرت (ص) کی شہادت کے بعد تقریبا 30/ سال اپنے والد گرامی، رسولخدا (ص) کے پہلے جانشین حضرت علی (ع) کے ساتھ زندگی گذاری۔ پھر امام علی (ع) کی شہادت کے بعد 10/ سال تک امامت کے منصب پر فائز رہے اور 28/ یا 7/ صفر کو 47/ سال کر عمر میں معاویة بن ابی سفیان کے حکم سے اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کے ہاتھوں زہر کا پیالہ پیا اور اسی زہر کے اثر سے شہید ہوگئے۔
منقول ہے کہ جب امام حسن (ع) کے جسم مطہر میں زہر کا اثر ہوگیا اور حالت احتضار کی کیفیت طاری ہونے لگی تو اچانک آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ وہاں پر موجود لوگوں نے کہا: اے فرزند رسول! آیا آپ بھی اتنے مقام و مرتبہ اور رسولخدا (ص) قرابت اور خدا کی اتنی ساری عبادت و اطاعت کرنے کے باوجود اس موقع پر گریہ کررہے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا: میں دوچیزوں کے لئے گریہ رہا ہوں: پہلی چیز روز قیامت کی ہیبت اور وحشت جو بہت دشوار ہے اور دوسرے احباب کا فراق ہے کہ یہ بھی بہت مشکل ہے۔ رسولخدا (ص) نے امام حسن (ع) کے بارے میں مختلف مناسبتوں سے فرمایا ہے: ایک یہ کہ رسولخدا (ص) نے فرمایا: اگر طے ہوتا کہ عقل کسی انسان کی صورت میں مجسم ہو تو امام حسن (ع) کی شکل میں ظاہر ہوتی۔ کبھی رسولخدا (ص) نے کہا: تم صورت اور سیرت میں مجھ جیسے ہو۔
حلم حسنیہ مشہور ہے کیونکہ آنحضرت (ع) کی بردباری اور وسعت صدر اتنا زیادہ تھی کہ آپ کا سب سے بڑا دشمن بھی آپ کی اس فضیلت کو مانتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے جنازہ میں مروان جو زبردست دشمن تھا وہ بھی تابوت کو کاندھادے رہا تھا اور جب اس سے امام حسین (ع) نے پوچھا کہ جب تک میرے بھائی زندہ تھی تو تم ان کے غم و اندوه کا باعث تھے آخر آج کیا ہوگیا کہ تم کاندھا دے رہے۔ تو اس نے جواب دیا: ہاں میں نے یہ کام اس کے بارے میں کیا ہے جس کا صبر، حلم اور بردباری پہاڑ کی طرح تھی۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
معاویہ ایک بادشاہ تھا اور امام حسن (ع) نے اس وقت اس (غیر دینی اور اسلامی کارناموں) کے خلاف قیام کیا جبکہ اس وقت سارے لوگ اس نامرد کی بیعت کرچکے تھے اور اسے سلطان مان رہے تھے۔ امام حسن (ع) جب تک کرسکے اس کے مخالفت کی اور پھر جب صلح کی تو معاویہ کو اس درجہ رسوا اور ذلیل کیا جس قدر امام حسین (ع) نے یزید کو رہتی دنیا تک کے لئے رسوا کیا ہے۔ (صحیفہ امام، ج 12، ص 371)