ایک روایت کے مطابق 2/ صفر اور ایک روایت کے مطابق 3/ صفر سن 131 ھ ق کو زید بن علی بن الحسین (ع) کی شہادت ہوئی ہے۔ جناب زید اپنے بھائی امام محمد باقر (ع) کے بعد اپنے تمام بھائیوں میں افضل، اشرف اور ممتاز فرد تھے۔ یہ عبادت و ریاضت، زہد و ورع، تقوی و پرہیزگاری اور اس طرح گمان کرتے تھے کہ ان کا تلوار کے ساتھ خروج کرنا امامت کے دعوی کی وجہ سے ہے، لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد امر بالمعروف اور حضرت سید الشہداء (ع) کے خون کا انتقام لینا اور لوگوں کو آل محمد (ص) کی طرف آنے کی دعوت دینا تھا؛ کیونکہ جناب زید کی شان و منزلت اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ وہ خود کو امامت کا مستحق سمجھتے اور امر امامت حضرت امام محمد باقر (ع) اور حضرت امام جعفر صادق (ع) سے متعلق ہے۔
جناب زید کی شہادت کے بارے میں بہت ساری روایات ذکر ہوئی ہیں اور ان پر ائمہ (ع) کے گریہ کرنے کے بارے میں بھی کافی روایات موجود ہیں۔ روایت کی گئی ہے کہ جب رسولخدا (ص) نے زید بن حارثہ کی طرف نظر کی تو آپ نے فرمایا کہ میری امت میں انہی کے ہم نام راہ خدا میں شہید ہوں گے اور دار پر لٹکائے جائیں گے ۔ اس کے بعد آپ (ص) نے زید کی طرف اشارہ کیا کہ میرے قریب آؤ۔ تمہارے نام نے میرے نزدیک محبت بڑھادی ہے اور تم میرے اہلبیت کے حبیب کے نام ہوگے۔ آپ پر گریہ کرنے کے بارے میں علی بن الحسین (ع) اور امام صادق (ع) سے روایات زیادہ ہیں۔
آپ کی شہادت کی داستان اس طرح ہے کہ مسعودی نے "مروج الذہب" میں ذکر کیا گیا ہے۔ جب زید نے خروج کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے بھائی امام محمد باقر (ع) سے مشورہ کیا۔ حضرت نے فرمایا: اہل کوفہ پر اعتماد نہ کرنا کیونکہ یہ لوگ دھوکہ اور مکار والے لوگ ہیں۔ اور کوفہ ہی میں آپ کے جد امیرالمومنین (ع) شہید ہوئے ہیں اور آپ کے چچا حسن بن علی (ع) کو زخمی کیا گیا ہے اور آپ کے جد حسین بن علی (ع) شہید ہوئے ہیں۔ کوفہ میں ہمارے اہلبیت پر سب و شتم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد زید کو بنی مروان کی حکومت اور اس کے بعد بنی عباس کی حکومت سے باخبر کیا۔
خلاصہ جناب زید نے قیام کردیا لیکن قیام کا نتیجہ وہی ہوا جو امام باقر (ع) نے بتایا تھا؛ کیونکہ جناب زید کے اصحاب جنگ کے شعلے بھڑکنے کے بعد بیعت توڑ کر فرار کرگئے اور زید کے ساتھ مختصر لوگ رہ گئے اور آپ دشوارترین مسلسل جنگ کرتے رہی یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ لشکر جنگ سے فرار کرگیا، زید کافی زخمی ہوگئے اور آپ کی پیشانی پر بھی تیر لگا ہواتھا۔ کوفہ کے کسی دیہات سے تیر نکالنے کے لئے حجام کو بلایا گیا۔ جیسے ہی حجام نے پیشانی سے تیر نکالا زید دار فانی کو وداع کہہ دیا۔ پھر لوگوں نے آپ کا جنازہ اٹھا کر پانی کی نہر میں دفن کردیا اور آپ کی قبر مٹی اور گھاس پھوس سے بھر دی اور پانی اس کے اوپر سے جاری ہوگیا اور اس حجام سے بھی معاہدہ کرایا کہ وہ اس بات کو آشکار نہ کرے۔
لیکن افسوس، جب صبح ہوئی تو حجام، یوسف کے پاس گیا اور اسے زید کی قبر کا پتہ بتادیا۔ یوسف نے جناب زید کی قبر کھولی، جنازہ نکالا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کیا اور جدا کرکے ہشام کے پاس بھیج دیا۔ ہشام نے لکھا کہ اسے برہنہ کرکے دار پر لٹکادیا جائے۔ یوسف نے انھیں کوفہ کے کوڑا پھینکنے کی جگہ پر دار پر لٹکادیا۔ کچھ مدت بعد، ہشام نے یوسف کو لکھا کہ ان کے جنازہ کو جلادو اور اس کی راکھ ہوا میں اڑادو۔ ابوالفرج کی روایت کے مطابق جناب ولید بن یزید کی خلافت کے ایام تک زید اسی طرح دار پر لٹکے رہے، چار سال تک آپ کا جنازہ دار پر لٹکارہا۔
ان دردناک اور غیر شرعی اعمال پڑھنے کے بعد ہر عاقل اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسا کرنے والا مسلمان تو نہیں ہو سکتا اور نہ ہی انسان ہوسکتا ہے۔ ہاں، انسان کی شکل میں درندہ اور بھیڑیا ضرور ہوسکتا ہے۔ ان درندوں اور حیوانوں نے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے۔ خداوند عالم جناب زید پر رحمتوں کی بارش کرے اور ان ملعونوں کو دردناک ترین عذاب میں مبتلا کرے۔