مسئلہ کشمیر کا حل مفاہمت یا مزاحمت؟
تحریر: صابر ابو مریم
مسئلہ کشمیر تاریخ کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، یہ مسئلہ بھی فلسطین کے مسئلہ کی طرح برطانوی استعمار کی سازشوں کے نتیجہ اور امریکی حمایت کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے۔ دونوں مسائل کی نوعیت اگرچہ اہمیت کے اعتبار سے جداگانہ ہے لیکن دونوں پر مسلط ظالم نطاموں کی مددگار حکومتیں اور آلہ کار ایک ہی ہیں، جن کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ہے۔ مسئلہ چاہے کشمیر کا ہو یا فلسطین کا یا پھر اسی طرح کے کسی اور خطے کا کہ جہاں ظالم و سامراجی نظاموں نے ملتوں کو محکوم بنا رکھا ہو اور ظلم و ستم کے نہ رکنے والے سلسلے قائم ہوں۔ ایسے ہر مقام پر اگر کسی حل کی بات کی جائے گی تو یقیناً یہی بات سامنے آئے گی کہ مظلوم ملتوں کو حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کریں۔ اگر بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بات کی جائے تو فلسطین و کشمیر سمیت ایسی تمام ملتوں کو یہ حقوق اور اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اپنی زمینوں پر قابض اور جارح قوتوں کو دور کرنے اور اپنے حقوق کے دفاع اور اپنی سرزمینوں کی واپسی کے لئے نہ صرف احتجاج کریں بلکہ مسلح جدوجہد بھی کرسکتے ہیں اور ایسی جدوجہد کو غیر قانونی نہیں کہا جائے گا۔
فلسطین کا مسئلہ لگ بھگ ستر سال سے زائد یا پھر اگر بالفور اعلان سے اس کا جائزہ لیا جائے تو ایک سو سال سے زائد کا ہوچکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی تاریخ بھی ستر سال سے زائد کی ہوچکی ہے، لیکن دونوں مسائل میں جب بھی مفاہمت کا ڈھونگ رچایا جاتا رہا ہے تو نتیجہ میں مظلوم ملتوں کے حقوق زائل ہوتے رہے ہیں۔ آئیں آپ کو فلسطین کے مسئلہ میں مفاہمت کی مثال پیش کرتے ہیں، جب یاسر عرفات نے امریکی جھانسوں میں آکر فلسطین کے مسئلہ کو صہیونی دشمن اور شیطان بزرگ امریکہ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ میں رہا سہا فلسطین بھی فلسطینیوں کے ہاتھوں سے رفتہ رفتہ جاتا رہا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دشمن اب قبلہ اول بیت المقدس پر بھی اپنا ناجائز تسلط قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح کی مفاہمت کے چکر میں الجھ چکا ہے۔ مفاہمت کے نعروں نے جہاں مجاہدین کو نقصان پہنچایا ہے، وہاں کشمیر کی مظلوم ملت کو آزادی اور استقلال سے کوسوں دور کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جب تک ظالم و جارح ہندوستانی افواج کو منہ توڑ جواب دیا جاتا تھا تو اس وقت دشمن اپنی حد میں رہتا تھا اور کشمیر پر حملہ کرنے یا کشمیریوں پر تیسرے درجہ کے مظالم ڈھانے سے پہلے درجنوں مرتبہ سوچ بچار کرتا تھا، لیکن ہم نے جب سے مفاہمت کا زہر گھول کر مزاحمت کو پس پشت ڈال دیا ہے، اس دن سے اب دشمن کی ہمت اس قدر بڑھ رہی ہے کہ وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں درندگی کرتا ہے بلکہ سرحد کے اس طرف آبادیوں پر بھی گولہ باری کرتا ہے، اگرچہ بعد ازاں اس جارح دشمن کو افواج پاکستان منہ توڑ جواب دے دیتی ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشمن کو یہ جرات ہی کیوں ہو۔؟ فلسطینیوں کو دیکھیں، اگرچہ نہتے ہیں کشمیریوں کی طرح ہی، لیکن گذشتہ کئی برس سے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں اور اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں اسرائیل جیسی خونخوار اور دنیا کے لئے طاقتور فوج کامقابلہ بھی کرتے ہیں۔ نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں اور دفاع کرتے ہیں بلکہ فلسطینی مزاحمت اس پوزیشن میں آچکی ہے کہ اپنے ڈرون طیارے اڑا کر دشمن کو حیران و پریشان کر رہی ہے۔صہیونی دشمن کی نیندیں اڑا چکی ہے۔
وہ صہیونی دشمن جس نے ماضی میں بیک وقت کئی کئی عرب افوج کو چند گھنٹوں میں زیر کر دیا تھا، آج لبنان میں حزب اللہ کے مقابلہ میں آنے سے بھاگ رہا ہے، کیونکہ 2006ء میں 33 روزہ جنگ میں بھیانک شکست مفاہمت کی وجہ سے نہیں بلکہ حزب اللہ کی مزاحمت اور استقامت کی وجہ سے ہوئی تھی، جسے اسرائیل تو کیا اس کے مٹ جانے کے بعد صہیونیوں کی نسلیں بھی تاریخ میں یاد رکھیں گی۔ اسی طرح فلسطین کے اندر ہونے والی لڑائیاں جو پہلے بائیس دن اور پچاس دن تک جاری رہتی تھیں، اب حالیہ اسرائیلی حملہ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی پائیدار مزاحمت کے باعث چند گھنٹوں میں پسپا ہو جاتا ہے، جو صرف اور صرف مزاحمت کے نتیجہ میں ہوا ہے نہ کہ مفاہمت۔ خلاصہ یہ ہے کہ کشمیر کے مظلوم عوام نہتے ہیں اور اپنے پاس موجود وسائل سے جس قدر ہوسکتا ہے، وہ اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں، لیکن اگر ان کی پائیداری کو کوئی چیز نقصان پہنچا رہی ہے تو وہ صرف اور صرف مفاہمت کا زہر ہے، جو کشمیر کے مسئلہ کو حل سے کوسوں دور لے جا رہا ہے اور اس مفاہمت کے زہر کے نتیجہ میں کہیں کشمیریوں کی آزادی کی امنگیں دم نہ توڑ جائیں۔ پس کشمیر کے عوام کو خود اندر رہتے ہوئے مزاحمت کا انتخاب کرنا ہے اور اسی طرح خطے کی مسلمان ریاستوں کو چاہیئے کہ کشمیر کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں، جس طرح فلسطین کے مسئلہ میں چند مسلمان ریاستیں فلسطینیوں کی مالی و مسلح مدد کر رہی ہیں۔
کشمیر چونکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مطابق پاکستان کی شہ رگ حیات ہے تو پس پاکستان کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ خود بھی کشمیر کے مظلوم عوام کو مالی و مسلح معاونت کرے اور مفاہمت کے زہر سے دور رہتے ہوئے مزاحمت کے راستے کو اختیار کیا جائے، کیونکہ تاریخ یہ ثبت کرچکی ہے کہ صہیونی دشمن ہو یا امریکی دشمن، یا پھر ان سب شیطانی قوتوں کا پولیس مین بھارت اور اس کی جارح افواج ہوں، ان سب کو صرف ایک ہی زبان سمجھ آتی ہے اور وہ زبان مزاحمت کی زبان ہے۔ پاکستان کے عوام کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ہر سطح پر جس قدر ممکن ہو دنیا کی مظلوم اقوام بشمول فلسطین، کشمیر، یمن، بحرین، نائجیریا سمیت میانمار جیسے علاقوں میں حکومتی امداد کو یقینی بنانے کے لئے حکومتوں کا ساتھ دے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مفاہمت کا راستہ کھلے رہنے سے نہ تو کشمیر کو آزادی ملنے والی ہے اور نہ ہی کشمیر سے بھارتی جارحیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ کشمیریوں کے دکھ درد کا مداوا اور آزادی کا واحد راستہ مزاحمت و استقامت ہے، جو کشمیر کے عوام کو اندر رہتے ہوئے اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں ہر سطح پر کھل کر ان کی حمایت اور مدد کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر کوئی اور حل کشمیر اور کشمیریوں سے دھوکہ تو ہوسکتا ہے لیکن حل نہیں ہوسکتا۔