ایران امریکہ تنازعہ پر چین امریکہ تنازعہ کے اثرات
تحریر: رابرٹ کپلان (کالم نگار اخبار نیویارک ٹائمز)
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک نے چین سے تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ بعض سیاسی ماہرین اس جنگ کو اس قدر وسیع سمجھتے ہیں کہ حتی دیگر ممالک جیسے ایران سے امریکہ کے تنازعات بھی اسی کے زیر اثر ہیں۔ خلیج فارس میں پیدا ہونے والا تناو ایران سے زیادہ چین اور بحر ہند سے مربوط ہے۔ بحیرہ اومان نہ صرف عمان اور ایران بلکہ عمان اور پاکستان کو بھی ایکدوسرے سے جدا کرتا ہے۔ پاکستان کے جنوب مغرب میں ایران کی سرحد کے قریب چین نے گوادر میں ایک انتہائی جدید بندرگاہ تعمیر کی ہے۔ چین امیدوار ہے کہ یہ بندرگاہ ہائی ویز، ریلوے لائنز اور پائپ لائنز کے ذریعے اس کے مغربی حصے سے متصل ہو جائے گی۔ چینی گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے آبنائے ہرمز سے گزرنے والی ہر تجارتی کشتی پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چین پہلے سے مشرق وسطی میں موجود ہے۔ چینی اس وقت ایران کی سرحد کے قریب ایک سمندری بیس کیمپ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
سب سے اہم نکتہ یہ کہ بحیرہ اومان اب تیل کی تجارت سے مخصوص ہو چکا ہے۔ ایسا تیل جس کی امریکہ کو شیل گیس انقلاب کی برکت سے بہت کم ضرورت ہے۔ بحیرہ اومان درحقیقت مشرق وسطی، برصغیر پاک و ہند اور مشرقی ایشیا کو چین کے ون بیلٹ منصوبے سے جوڑ دیتا ہے۔ ایسے وقت جب امریکہ ایران سے جنگ کے بارے میں سوچ رہا ہے چینی تجارت اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ ون بیلٹ منصوبے میں انتہائی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ایران میں چین کے مفادات خشکی اور سمندری دونوں راستوں پر منحصر ہیں۔ وہ راستے جو چین پہلے سے پورے وسط ایشیا میں تعمیر کر چکا ہے اسے ایران سے ملا دیتے ہیں۔ یہ یوریشیا میں ایک نہ ٹوٹنے والا ملاپ ہے۔ ایسا خطہ جہاں ایران جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی جارحیت ایران کو زیادہ سے زیادہ چین کی طرف جھکاو اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ ایران اپنی انرجی کی مصنوعات کی کل تجارت کا تیسرا حصہ چین سے انجام دیتا ہے۔
ہو سکتا ہے چین اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات امریکی حکومت کی پابندیوں اور امریکہ اور چین کے درمیان جاری مذاکرات کی پیچیدگیوں کے باعث کچھ حد تک محدود ہو جائیں لیکن آخرکار چین اور ایران باہمی تعاون کو فروغ دینے اور امریکی پابندیوں سے بچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔ بحیرہ اومان اور بحر ہند کے ساتھ ساتھ انرجی کے دیگر مراکز سلک روڈ منصوبے میں بنیادی حیثیت برقرار رکھیں گے۔ مقصد خام تیل اور گیس براہ راست چین منتقل کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان واقع آبنائے مالاکا جہاں سے چین بھیجے جانے والے خام تیل کی زیادہ تر تجارت انجام پاتی ہے آبنائے ہرمز کی طرح انتہائی چھوٹا ہے۔ خلیج فارس کے ذریعے تجارت صرف چین کیلئے ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ پاکستان، بھارت اور ایران بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ اس پورے منصوبے میں امریکہ کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا۔
ایران ٹھیک اکیسویں صدی کے جیوپولیٹیکل مرکز میں قرار پایا ہے۔ وسطی ایشیا کے تجارتی راستے یہیں سے گزرتے ہیں اور بحر ہند کے تیل کے عظیم ذخائر بھی یہیں پر ہیں۔ عراق سے پاکستان تک 1500 میل طویل ساحلی پٹی بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ چین کے منصوبوں میں ایران کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے یوریشیا کا خطہ چین کیلئے اہم ہے۔ درحقیقت چین ایک وسیع اسٹریٹجی پر گامزن ہے جس کی روشنی میں وہ اس پوری ثقافت اور جغرافیا کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ انتہائی درجہ تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ایران سے جنگ کے درپے ہے۔ امریکہ کی جانب سے یوریشین سی فری ٹریڈ یونین سے دستبرداری سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کے پاس سلک روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکی حکام خلیج فارس کو ایک چھوٹا اور کم اہمیت خطہ تصور کرتے ہیں جبکہ چینی حکام بہتر جغرافیائی تصورات کے مالک ہیں۔