علی (ع) کا معاویہ سے مقابلہ
حضرت امیر (ع) نے معاویہ کے خلاف جو قیام کیا تھا، اُس میں آپ ؑ معاویہ کو اپنے مقام سے ہٹا کر ایک عادل حکومت قائم کرنا چاہتے تھے اور شام وسوریہ میں ایک فاسق اور لوگوں کا مال کھانے والے شخص کو ہٹا کر اُس کی جگہ ایک صحیح انسان کو حاکم بنانا چاہتے تھے، چونکہ معاویہ کے ظلم کو روکنا ایک شرعی ذمہ داری تھی جس کیلئے قیام کرنا ضروری تھا تاکہ عوام کو سمجھائیں کہ یہ شخص ظالم ہے اور ایسے اشخاص کو ختم ہوجانا چاہیے، لہذا امام ؑ نے قیام کیا، لیکن آپ ؑاُسے اپنے مقام سے معزول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۸)
حضرت علی (ع) کی سیرت دوسروں کیلئے حجت ہے
اس کے باوجود کہ جو لوگ اپنے زعم میں حضرت امیر ؑ کو نصیحت کرتے تھے کہ آپ ؑ کچھ عرصے کیلئے معاویہ کو اپنی حکومت میں رہنے دیں اور جب آپ ؑ کی حکومت کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں تو پھر اُسے ہٹا دیں ۔ لیکن آپ ؑ نے اُن میں سے کسی ایک کی بات کو قبول نہیں کیا اور آپ ؑ کی دلیل یہ تھی کہ جب ایک شخص الٰہی اُصول وضوابط کے خلاف عمل کرتا ہے اور پورے علاقے میں ظلم انجام دے رہا ہے تو ایسے شخص کو میں ایک لحظے کیلئے بھی حاکم نہیں بنا سکتا، بلکہ اگر امام ؑ اُسے حاکم بنا دیتے تو یہ ایک حجت اور دلیل بن جاتی کہ ایک فاسق کو ولی امر کی طرف سے حاکم بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن حضرت امیر ؑ نے اس بات کو قبول نہیں کیا حتیٰ اگر بالفرض اس وقت کچھ مصالح بھی تھے تو آپ ؑنے اُن کو نظرانداز کردیا۔ آپ کیلئے اپنی حکومت کے مضبوط ہونے تک معاویہ کو ہٹانا ممکن بھی تھا، لیکن آپ ؑ نے معاویہ کو حتیٰ ایک دن کیلئے بھی اپنی حکومت میں باقی رہنے کی اجازت نہیں دی اور یہ بات ہمارے لئے حجت ہے کہ اگر ہم میں طاقت ہو تو ہمیں ان ظالم حکومتوں کو ہٹا دینا چاہیے اور اگر خدا نخوستہ ایسا نہ کرسکیں تو ان حکومتوں سے خواہ ایک دن یا ایک گھنٹے کیلئے ہی کیوں نہ ہو، راضی ہونا، ظلم ہے، چونکہ یہ تعدی وتجاوز پر رضایت ہے، یہ لوگوں کے مال کو لوٹنے پر راضی ہونا ہے، لہذا کسی بھی مسلمان کو حتیٰ ایک لحظے کیلئے بھی کسی ظالم حکومت پر راضی رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ پس الٰہی اُصول وضوابط کے خلاف اور قانونی موازین کے برعکس قائم ہونے والی حکومتوں کے خلاف مبارزہ کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ اس سے جس قدر ہوسکتا ہے، ان کے خلاف مبارزہ کرے اور اس سلسلے میں کوئی بھی بہانہ قابل قبول نہیں ۔
(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۹)