مظلوم کو نجات دلانا امام علی (ع) کے کلام میں
علمائے اسلام کا اسلامی ممالک اور قوانین سے جو تعلق ہے وہ ایک نہ ٹوٹنے والا الٰہی تعلق ہے۔ ہم خداوند متعال کی جانب سے اسلامی ممالک اور اُن کے استقلال کی حفاظت پر مامور ہیں اور اسلام ومملکت کے استقلال کو در پیش متوقع خطرات کے مقابلے میں سکوت اور عدم نصیحت کو ایک جرم اور عظیم گناہ جانتے ہیں اور اسے تاریک موت کے استقبال کے مترادف قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے عظیم پیشوا حضرت امیر المومنین ؑ ظلم کے مقابلے میں خاموشی کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور ہم بھی اس کو جائز نہیں جانتے۔ قوم وملت، حکومتوں اور پورے نظام کی راہنمائی کرنا ہمارا فریضہ ہے اور خداوند متعال نے چاہا تو ہم اس فریضہ کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ اس زمانے میں ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا، ظالموں کی اعانت کے مترادف ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱، ص ۲۳۷)
مظلوم اور محروم عوام کو نجات دلانا ہمار ا فریضہ ہے، مظلومین کا حمایتی اور ظالموں کا دشمن بننا ہمارا فریضہ ہے۔ یہی وہ فریضہ ہے جس کی امام علی ؑ اپنے دونوں فرزندوں کو اپنی مشہور وصیت میں یاد دہانی کر ارہے ہیں اور فرماتے ہیں : {کُونا لِظالم ِخَصماً ولِلمظلوم عَونا}’’ظالموں کے دشمن اور ستمدیدہ ومظلوم افراد کے حامی وپشت پناہ رہو‘‘(نہج البلاغہ، خطبہ ؍ ۳)
(ولایت فقیہ، ص ۲۸)
یہ بات بہت واضح ہے کہ مذہبی علماء نے شاہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا ہے، امام علی ؑفرماتے ہیں : ’’خداوند متعال نے علماء سے عہد لیا ہوا ہے کہ وہ ظالم کی پُرخوری اور مظلوم کی بھوک پر خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔یہ ظالم شاہ اور اُس کے حواری ہیں کہ جنہوں نے ہمارے عوام کے طاقت فرسا فقر وفاقے کے باوجود اربوں ڈالر کی ثروت اپنے ساتھ مختص کر رکھی ہے۔ اگر دین میں بدعتیں ظاہر ہونے لگیں تو علمائے دین پر لازم ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کریں اور کبھی بھی اجازت نہ دیں کہ بدعت گذار لوگوں کا دھوکہ وفریب اور جھوٹ دین اور عوام پر اثرانداز ہونے لگے اور اُن کی گمراہی کا باعث بنے۔
(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۳۸۹)
ہمیں اس لوٹ مار اور حرام خوری کو روکنا چاہیے۔ یہ سب لوگوں کا فریضہ ہے، لیکن علمائے دین کا فریضہ سب سے زیادہ سنگین اور اہم ہے۔ ہمیں دوسرے تمام مسلمانوں سے زیادہ اس مقدس جہاد اور اہم فریضے میں شرکت کرنی چاہیے۔ ہماری جو منزلت اور مقام ہے اُس کی وجہ سے ہمیں پیش قدم ہونا چاہیے۔ اگر آج ہم میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ہم ان کاموں کی روک تھام کریں اور ان حرامخور، ملت کے خائن اور قدرتمند وحاکم چوروں کو اپنے اعمال کی سزا تک پہنچا سکیں تو ہمیں یہ قدرت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود ہمیں کم از کم اپنے فریضے کی انجام دہی، حقائق کے اظہار اور ان حرامخوریوں وجھوٹ وفریب کو افشا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ جب ہم قدرت ہاتھ میں لے لیں گے تو نہ فقط ملک کی سیاست اور اقتصاد کی اصلاح کریں گے، بلکہ ان حرام خوروں اور جھوٹوں کو کوڑے مار کر اپنے اعمال کی سزا تک پہنچائیں گے۔
(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۹۱)