رمضان

رمضان خودسازی کا مہینہ

خداوند عالم نے آپ کی میزبانی کے لئے کس درجہ اہتمام کیا ہے اور آپ کو کتنا عظیم سمجھا ہے کہ اس نے اپنے ماہ میں آپ کو اپنا مہمان بنایا اور خود مہمان نواز و میزبان بنا ہے

رمضان خودسازی کا مہینہ

ماہ مبارک رمضان سے متعلق رسول اکرم (ص) کے خطبہ کے ایک جملہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، اس خطبہ کا ایک جملہ یہ ہے کہ اللہ نے آپ لوگوں کو اپنا مہمان بنایا ہے، آپ حضرات خداوند عالم کے دسترخوان عبادت اور معرفت کے مہمان ہیں، خداوند نے آپ کو اپنے یہاں دعوت دی ہے۔ آپ لوگ اس عظیم اور با برکت مہینہ میں خداوند سبحان کے مہمان ہیں، کیونکہ اس ماہ کو خدا نے اپنے آپ سے منسوب کیا ہے۔ وہ بندہ کتنا خوش نصیب اور عظیم ہے جس کا میزبان خود خداوند رحمان ہو۔ اور اس کی مخلوق  مہمان (اقبال الاعمال، ج 1، ص 26)

خداوند عالم نے آپ کی میزبانی کے لئے کس درجہ اہتمام کیا ہے اور آپ کو کتنا عظیم سمجھا ہے کہ اس نے اپنے ماہ میں آپ کو اپنا مہمان بنایا اور خود مہمان نواز و میزبان بناہے۔ اس ماہ میں قرآن نازل ہوا، اس ماہ میں شب قدر جیسی عظیم اور بابرکت راتیں ہیں، اس ماہ میں سونا عبادت، ہر سانس پر عبادت کا ثواب، ہر سانس خداوند قدوس کی تسبیح شمار ہوتی ہے۔ اس ماہ میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور دنیا و آخرت کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں، اگر انسان اس ماہ کے لمحہ لمحہ سے استفادہ کرے اور صحیح استفادہ کرے  تو اس سے عظیم اللہ کا کوئی بندہ نہیں، اس کے معنوی فیض سے بہرہ مند ہو اور دوسروں کو بھی فیضیاب کرے۔

یاد رہے کہ خداوند ذوالجلال و الاکرام کے کامل اولیاء کے حوالہ سے اس دعوت کی نوعیت کچھ اور ہے اور وہ ہمارے فہم و ادراک سے بالاتر ہے جس کی عظمت اور شرافت تک کسی عام انسان کی رسائی نہیں ، جس کی کرامتوں تک طائر فکر پرواز نہیں کر سکتا، اس حقیقت تک ہماری رسائی نہیں ہے لہذا ہمیں غور و خوض کرنا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مہمانی اور ضیافت کی حقیقت کیا ہے اور ہم اس ضیافت سے کس قدر فیضیاب ہوئے ہیں اور ہم اس دسترخوان سے کون کون سی سعدتیں اور فضیلتیں حاصل کی ہیں۔ اگر چہ خداوند کی رحمت واسعہ پورے عالم کو محیط ہے اور ہر چیز خداوند عالم کی رحمت کا مظہر اور جلوہ ہے اور اس کی رحمت کا دائرہ ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے لیکن ضیافت کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ضیافت کی دعوت اور مہمان بنانا ایک دوسری چیز ہے۔ اس دعوت کا نام خدا کے اوامر پر عمل کرنا اور اس کے منع کردہ اور حرام کردہ امور سے پرہیز کرنا ہے۔

یہاں پر نفسانی خواہشات جیسے کھانے، پیے اور لذت  کی چیزوں سے اجتناب مطلوب ہے۔ خداوند متعال نے ہمیں اس مہمان خانہ میں داخل ہونے کی دعوت دی جس میں ترک اور اجتناب کرنا ضروری ہے اس دسترخوان سے اللہ کی مرضی کا خیال رکھنا اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔ لہذا ہمیں اپنا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا چاہیئے کہ هم اس مہمان خانہ میں داخل ہوئے ہیں یا نہیں؟ یا داخل تو ہوئے لیکن داخل ہونے کا حق ادا نہیں کیا، ہم نے خدا کی مہمانی پر لبیک نہیں کہی اور اگر داخل ہوکر بے فیض ہی رہ گئے، اس کی لازوال نعمتوں اور روحانیت سے محروم رہے، ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہمارے اعضاء و جوارح سے اللہ کی مرضی کے جلوے ظاہر نہ ہورہے ہوں تو گویا ہم اس مہمانی میں شامل ہی نہیں ہوئے، خدا کے مہمان نہیں ہوئے اور اس کے عظیم نعمتوں کے دستر خوان سے استفادہ نہیں کیا، امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

میں آپ حضران اور ان لوگوں سے جن تک میرے الفاظ پہونچیں خاص کر جوان طبقہ سے عرض کرتا ہوں کہ کیا آپ اس مہمان خانے میں داخل ہوئے ہیں؟ کیا آپ نے اس سے کچھ استفادہ کیا ہے؟ کیا آپ نے نفسانی خواہشات بالخصوص روحانی خواہشات اور جسمانی لذتوں سے چشم پوشی کی ہے؟ کہیں آپ بھی میری طرح تو نہیں ہوگئے.....

لہذا خداوند عالم کے مہمان بندوں خدا و رسول (ص) کی نصیحتوں، فرمائشات کو نظر میں رکھ کر اس کے مہمان خانہ میں داخل ہوئے اور اپنی زندگی کے صفحہ کو بدل کر رکھ دو اور ایک الہی اور روحانی انسان بن کر باہر نکلو۔ گناہوں سے دوری تو ہر وقت اور ہر جگہ مطلوب اور پسندیدہ ہے لیکن اس ماہ میں گناہوں سے دوری اور اعمال صالحہ بجا لانے پر  ثواب میں زیادتی ہوتی ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، اس ماہ کے شرائط کی پابندی سے انسان اعلی علیین کے مراتب تک پہونچتا ہے۔ خدا نے رحمت، مغفرت، عفو و درگذر کے دروازہ کھول دیئے ہیں، بہر حال عمل صالح مطلوب، حضرت علی (ع) کی فرمائش کی روشنی میں انسان کی دنیا میں قدر مال سے ہوتی ہے اور آخرت میں عمل سے لہذا عمل کرو، عمل کرو اور خودسازی کرکے خدا اور رسول (ص) کے سامنے سرخرو بناؤ۔

ای میل کریں