حضرت امام خمینی (رح) کے ایک ناقابل فراموش اور اخلاقی نمونہ ایک لڑکی کا ہے جس نے ایک ایسے پاسدار اور حکومت کے محافظ سے شادی کی جس کے جنگ میں دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے اور دونوں آنکھیں بیکار ہوچکی تھیں۔ امام اس لڑکی کی تعریف میں فرماتے ہیں:
اس دلیر اور عظیم روح کی مالک اور محبت و خلوص سے لبریز لڑکی نے کہا: میں جب محاذ پر نہیں جا سکتی تو میں اس شادی سے انقلاب سے حق اور اپنی گردن پر موجود دین کو ادا کرسکوں۔ اس واقعہ کی روحانی عظمت، انسانی اقدار اور الہی ترانے نے شاعروں، مصنفین، مولفین، نقش نگاروں اور ہنرنمائی کرنے والوں، عارفوں، فلاسفہ اور فقہاء اور اسی طرح جو بھی چاہے اس جذبہ الہی کی عکاسی اور بیان نہیں کرسکتا اور اس خدا ترس لڑکی کی قربانی اور جاں نثاری کو بیان نهیں کرسکتا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی کا خیال ہے کہ ماوں کی معاشرہ کی خدمت معلمین اور دیگر افراد کی خدمات سے بالاتر ہے؛ کیونکہ مائیں معاشرہ کے افراد کی اپنی آغوش میں تربیت کرتی ہیں۔ یہ انبیاء کا کام ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ خواتین شیردل اور جوانمرد انسانوں کی تربیت کرکے معاشرہ کے حوالہ کریں۔ رہبر انقلاب بچہ داری کو سب سے بڑی مسئولیت اور شریف ترین کام جانتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ کو ایک صحیح اور سالم انسان حوالہ کرنا انبیاء کا مقصد جسے خداوند عالم نے پوری تاریخ میں انبیاء بھیجے۔
امام خمینی (رح) کی نظر میں معاشرہ کو ایک اچھا انسان حوالہ کرنا اور اس کی اہمیت و شرافت اس درجہ ہے کہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ بچے ماں کی بات زیادہ مانتے ہیں اور ماں کا اخلاق بچوں میں موثر ہوتا ہے۔ دوسروں کے بس کی بات نہیں ہے مائیں ہر خیر کا سرچشمہ ہیں، اگر خدا نخواستہ بچوں کی غلط تربیت کردیں اور برائی کا سرچشمہ بن جائیں، مائیں ایسے بچے کی تربیت کرسکتی ہیں جو پوری کو نجات دلائے اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔
رہبر انقلاب خواتین کو مردوں کا معلم اور استاد جانتے ہیں اور ان پر دورد و سلام کے ساتھ ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی نصیحتوں سے مردوں کو راہ راست پر لگائیں۔ انقلاب ایران کی تحریک میں خواتین مردوں کی معلم رہی ہیں اور آج بھی اسی طرح ہے آپ نے خواتین کو اسلام کے سپاہیوں کے ہم پلہ قرار دیا اور صدر اسلام کی خواتین کے ہم رتبہ جانتے ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں هے؛ کیونکہ دونوں ہی انسان ہیں اور اپنی سرنوشت میں مداخلت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان بعض موارد میں فرق ہے لیکن اس کا ان کی انسانی حیثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امام خمینی (رح) کی نظر میں اس سلسلہ میں خواتین کا نمونہ وہ خاتون ہوسکتی ہے جو معمولی گھر میں بیٹھ کر ایسے انسان کی تربیت کرے جس کا نور زمین سے آسمان پر جائے اور عالم ملک سے لیکر عالم ملکوت کو منور کردے۔ یہ معمولی گھر، حضرت زہرا (س) کا ہے جس میں 5/ افراد کی تربیت ہوئی کہ پوری حق کی طاقت جلوہ گر ہوئی ہے اور ایسی خدمات انجام دی ہیں کہ عالم بشریت حیرت زدہ ہے۔
گھر کے اندر کا کام عورتوں کے ذمہ ہے اور اس کام میں کسی نامحرم سے ربط کرنے کے لئے مجبور نہیں ہے۔ حضرت زہرا (س) کی سیرت خواتین کے لئے اور مردوں کے لئے حضرت علی (ع) کی سیرت نمونہ هے کہ آپ دونوں ہستیوں نے ازدواجی زندگی کو کیسے خوشگوار بنایا اور دنیا کے لئے نمونہ عمل اور عبرت تاریخ بنایا ہے۔ حضرت زہرا (س) کی سیرت طیبہ جہاں گھر کی چار دیواری میں شوہر داری اور بچہ داری اور تربیت انسانی کا اعلی نمونہ ہے اسی طرح میدان جہاد اور مقابلہ میں جاں نثار اور ایثار و قربانی کی اعلی مثال ہے۔
دنیا کے مرد واور دنیا کی خواتین ان دونوں عظیم ہستیوں کی سیرت طیبہ اور کردار ساز روش کا بدقت مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کو نور ایمان اور اسلام کے قوانین سے ہماہنگ کرکے نورانی بنائیں اور دنیا میں مثالی ازدواجی زندگی کا نمونہ پیش کریں کیونکہ ہر عصر اور زمانہ میں ایسی دلیر، شجاع، پاکیزہ سیرت اور عفت مآب خاتون کی ضرورت ہے ، معاشرہ اچھے انسانوں کا خواہاں ہے اور اسے ایسی ماؤں کی ضرورت ہے جو معاشرہ اور سماج کو مثالی بناسکیں۔