نخع قبیلہ کا ایک بزرگ کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر (ع) سے عرض کیا: میں حجاج کے زمانہ سے اب تک مسلسل والی اور حاکم رہا ہوں تو کیا میرے لئے توبہ ممکن ہے؟ امام (ع) ساکت رہے یہاں تک کہ میں نے یہی سوال دو مرتبہ کیا تو حضرت نے جواب دیا: "لا ، حتی تودی الی کل ذی حق حقہ؛ نہیں! جب تک کہ صاحب حق کا حق ادا نہ کردو۔"
جب رسولخدا (ص) نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو حضرت علی (ع) سے فرمایا: اے علی! ہم لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کررہے ہیں اور تم مکہ واپس جاؤ اور دن کی روشنی میں بلند آواز سے اعلان کردو کہ محمد، مکہ سے نکل چکے ہیں۔ لہذا ان کے پاس جس کسی کی بھی امانت ہی یا ان سے کوئی مطالبہ رکھتا ہے وہ میرے پاس آکر اپنی امانت اور اپنا قرض لے لے۔
شعیب نامی شخص نقل کرتا ہے: امام صادق (ع) کے باغ میں کچھ لوگ کام کررہے تھے اور انہیں عصر تک کام کرنا تھا لیکن جیسے ہی کام ختم ہوا امام (ع) نے (اپنے غلام) سے کہا: ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی اجرت دے دو۔
اسمعیل بن خالد کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق (ع) سے سنا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: امام باقر (ع) نے ہم سب کو جمع کرکے فرمایا: "یابنی! ایاک التعرض للحقوق؛ اے بیٹا! لوگوں کے حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے بچو۔"
امام صادق (ع) نے فرمایا: رسوخدا (ص) (حجة الوداع کے موقع پر کہ وہ آپ کی زندگی کا آخری حج تھا اور بہت سارے مسلمانوں نے حج کے مراسم میں شرکت کی تھی) سرزمین منا پر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
سب سے اہم اور گرامی قدر کونسا دن ہے؟ مسلمانوں نے کہا: آج کا دن (عید قربان)۔ پھر فرمایا: اہم ترین اور بلندترین کونسا مہینہ ہے؟ مسلمانوں نے کہا: یہی ذی الحجة۔ پھر فرمایا: کونسی سرزمین (شہر) تمام سرزمینوں میں زیادہ محترم ہے؟ ان لوگوں نے کہا: یہ سرزمین (مکہ) اس وقت پیغمبر (ص) نے فرمایا: بیشک! جان لو! کہ تمہارا خون اور تمہارے اموال تم پر محترم ہیں، جیسے اس ماہ میں اس دن کا احترام ہے اور اس سرزمین پر قیامت آنے تک یہاں تک کہ خدا سے ملاقات کرو۔ اس کے بعد فرمایا: خبردار، خداوند عالم تم سے تمہارے اخلاق و کردار کے بارے میں سوال کرے گا۔ اس کے بعد فرمایا: کیا میں نے اپنی رسالت تم تک پہونچادی ہے؟وہاں موجود سارے مسلمانوں نے کہا: ہاں۔ پیغمبر (ص) نے کہا: خدایا! گواہ رہنا۔
اس کے بعدفرمایا: تم میں سے جس کسی کے پاس بھی کوئی امانت ہے اسے اس کے مالک کو واپس کردے اور جان لو کہ مسلمان کا خون بہانا ہرگز حلال نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے مال میں تصرف حلال ہے سوائے اس مورد کے جس میں صاحب مال راضی ہو۔ تم لوگ اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور میرے بعد اسلام سے کفر کی جانب نہ پلٹنا۔
موسی بن عمیر اپنے والد کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں: امام حسین (ع) نے مجھے حکم دیا کہ میں لشکر کے درمیان اعلان کروں کہ جو شخص مقروض ہے وہ امام حسین (ع) کے ہمراہ اور ہم رکاب نہ ہو؛ کیونکہ جو مرجائے اور اپنا قرض ادا کرنے کا فیصلہ نہ رکھتا ہو وہ جہنم کی آگ میں جلے گا۔