کہنا چاہیئے کہ امام خمینی (رح) کے زندان سے واپس آنے اور آزاد ہونے کے بعد مقابلہ کے جاری رکھنے سے متعلق مراجع نے کوئی خاص تعاون نہیں کیا۔ امام کے جلاوطن ہونے کے بعد بھی امام کے کچھ شاگرد بھی جو حوزہ علمیہ کے اساتذہ اور بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اس نتیجہ پر پہونچے کہ وہ لوگ خود ہی اس کام کو آگے بڑھائیں اور انقلاب کی چنگاری بجھنے نہ دیں۔ اس کے لئے انہوں نے کچھ کام کئے منجملہ یہ کہ حرم میں حضرت آیت اللہ نجفی کے اقتدا میں نماز جماعت پڑھنے کے بعد خاص سوز و گداز کے ساتھ دعائے توسل اور حافظ کا یہ شعر پڑھتے تھے:
یوسف گم گشتہ باز آید بہ کنعان غم مخور ؛ گمشدہ یوسف کنعان لوٹ کر آئے گا غم نہ کرو
کلبہ احزان شود روزی گلستان غم مخور؛ غم و اندوه کا حجرہ ایک دن گلستان ہوگا غم نہ کرو
یہ اشعار پڑھ کر امام کی یاد کرتے تھے۔ شبہائے جمعہ میں لوگوں کی قابل دید بھیڑ ہوتی تھی۔ بعض راتوں کو نماز کے بعد خود آیت اللہ مرعشی نجفی بھی بیٹھتے تھے اور دعا سنتے تھے۔ تقریبا 30/ احباب نے عہد کیا تھا کہ ہر شب شریک رہیں گے اور ان میں سے بعض نوبت وار دعا پڑھتے تھے اور ساواک کی جانب سے شناخت کے خوف سے اپنے عمامہ بدلتے رہتے تھے یعنی جو سیاہ عمامہ رکھتا تھا وہ سفید اور سفید والا سیاہ پہن لیتا تھا۔