ابنا کی رپورٹ کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تہران میں طالبان وفد کے ساتھ مذاکرات کی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات حکومت افغانستان کی ہم آہنگی سے انجام پائے ہیں۔
پیر کے روز ہفتہ وار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان بہرام قاسمی نے بتایا کہ اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی کے گزشتہ ہفتے دورہ کابل اور افغان قیادت سے ملاقات کے بعد، اتوار کے روز طالبان کا ایک وفد تہران آیا اور اس نے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے مذاکرات انجام دیئے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ افغانستان کا پچاس فی صد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور اس ملک میں بدامنی، عدم استحکام اور دوسری مشکلات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے کہا کہ طالبان نے ایران سے مذاکرات کا رجحان ظاہر کیا تھا اور حکومت افغانستان کی اطلاع اور ہم آہنگی سے مذاکرات کیے گئے ہیں۔
ترجمان وزارت خارجہ بہرام قاسمی نے کہا کہ طالبان کے ساتھ تہران کے مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار کیاجائے تاکہ اس ملک میں امن کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے۔
شام کے بارے میں آستانہ مذاکرات میں ایران، روس اور ترکی کے درمیان تعاون اور تینوں ملکوں کی سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ شام میں قیام امن اور آئین ساز کمیٹی کے قیام تک تینوں ملکوں کے باہمی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
بہرام قاسمی نے عراق سے ایرانی فوجی مشیروں کی واپسی کے بارے میں کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں فوجی مشاورت عراقی حکومت کی درخواست پر فراہم کی گئی تھی اور داعشی دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقوں کی آزادی اور دہشت گرد عناصر کے عراق سے فرار کے بعد ایران کا مشاورتی مشن بھی ختم ہوگیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایس پی وی سسٹم کے قیام کے لئے یورپ کی جانب سے شرطیں عائد کئے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کوئی ایسا ملک نہیں ہے کہ دیگر ممالک اس کے لئے شرطیں عائد کر سکیں۔
ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں یورپ، امریکہ اور اس کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے مقابلے میں کافی ناتواں ہے اور وہ یورپی تشخص اور یورپ کے مالی و اقتصادی اداروں کے دفاع کے لئے ضروری توانائی نہیں رکھتا۔