کسی سے کسی کے بارے میں کوئی بات سن کر اس سے جاکر یا ملاقات ہونے پر ہونے والی بات اور بات کرنے والے کے بارے بتادینا اور خبر کردیانا چغلخوری کہلاتا ہے۔ چغلخوری ایک گناہ کبیرہ ہے یعنی ایسا گناہ جس کی عذاب خداوند عالم نے وعدہ کیا ہے اور سزا معین فرمائی ہے۔ چغلخوری مذموم، ناپسندیدہ اور قبیح فعل ہے اور چغلخوری کرنے والے انسان رذیل اور نفس کا گندا انسان کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: "آپ (اے پیغمبر!) ہرگز اطاعت نہ کریں کسی پست منافق کی جو مسلسل جھوٹی قسم کھاتا ہے اور عیب جوئی اور چغلخوری کرتا ہے اور خلق (خدا) کو خیرو سعادت سے روکتا ہے اور ظلم و بدکاری کی کوشش کرتا ہے۔" (سورہ قلم، آیت 9 اور 10)
رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: " چغلخوری کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا"
چغلخور انسان پاکیزہ افراد کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے، تجسس کرتا ہے اور کان لگائے رہتا ہے اور ان کے درمیان اپنی بیہودہ گوئی اور چغلخوری سے اختلاف پیدا کرتا ہے اور دشمنی ایجاد کرتا ہے۔ چغلخور انسان کے اندا جھوٹ، غیبت، مکر و فریب، کینہ، حسد، نفاق اور بندگان خدا کے درمیان فساد پیدا کرنے کا بھی مادہ ہوتا ہے کہ اس چغلخور کی گندی اور ناپاک ذات اسے ابدی ہلاکت اور بدبختی کی طرف لے جاتی ہے۔
چغلخور اپنی عمر ڈر، خوف اور اضطراب میں گذارتا ہے کیونکہ اسے عنقریب رسوا ہونے کا خطرہ اور اندیشہ رہتا ہے۔ چغلخور کی ناروا باتوں کو نہیں سننا چاہئیے، بلکہ اسے نصیحت کرنا چاہیئے کہ اس بری عادت اور تفرقہ اندازی سے باز آجاؤ اور خود کو دوزخ کا ایندھن نہ بنائے۔
واقعہ ہے کہ ایک شخص کی حکیم سے ملنے گیا اور اس سے کسی دوسرے کی بات نقل کردی۔ حکیم نے کہا: تم نے مجھے میرے بھائی سے بدگمان کردیا اور میرے فارغ اور آسودہ دل کو غمگین اور مشغول کردیا اور خود کہ میرے نزدیک مورد اطمینان اور امین تھے کو متہم کردیا۔ مجھے اور تم کو کیا فائدہ ہوا۔
چغلخور، ادھر کی ادھر بات کرکے دونوں دلوں کے درمیان نفرت، بغض و عداوت اور کینہ و کدورت پیدا کرتا ہے ۔ یہ تو ظاہری اثر ہوتا ہے دوسرے ابدی طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ کا ایندھن بنتا ہے اور بات کھلنے پر دونوں ہی کی نظر میں ذلیل و رسوا بھی ہوتا ہے۔ اس طرح سے ایسا انسان افراد اور معاشرہ کے درمیان مسلسل فساد پھیلاتا رہتا ہے اور ایک پر سکون اور مطمئن دل کو غمگین و افسردہ بنادیتا ہے۔ معاشرہ اور افراد کا سکون غارت کرتا ہے۔ شیطان کا آلہ کار بن کر خدا کی رحمت سے دور ہوتا اور عذاب الہی کا نشانہ بنتا ہے۔ جو لوگ قرآن و حدیث سے سروکار رکھتے اور اللہ و رسول کی باتیں کرتے کاش متوجہ ہوتے کہ ہم کیا کررہے ہیں، ہمارا کام لوگوں کی اللہ کی طرف ہدایت اور صراط مستقیم پر لگانا ہے نہ کہ خدا کے بندوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا بیج بونا ہے۔
مفسد، خداوند عالم کے حکم اور دستور کے خلاف لوگوں کے درمیان جدائی اور تفرقہ ڈالنے، معاشرہ میں انتشار پھیلانے، دوانسانوں اور گروہوں کے درمیان ہنسی خوشی کے ماحول کو خراب کرنے، ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا دل خوف خدا سے خالی اور شیطان کا عامل اور کارگزار بن کر معاشرہ کو تباہ کرنے میں لگارہتا ہے۔ خدا کی نزدیک اور انسانوں کے نزدیک اس کا وقار کیا ہوگا۔ گناہ اور عذاب الہی سے بچ نہیں سکتا، خدا کی عدالت میں سزا معین ہے۔ خدا ہم سب کو اس بری صفت سے محفوظ رکھے۔