امام خمینی (رح) کے اساتذہ کا ایک پاکیزہ سلسلہ بڑے بڑے علمائے ربانی، دانشوران الہی اور اہل فضل و شرف کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ کے بڑے بھائی آیت اللہ سید مرتضی پسندیدہ سے لیکر آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی، آقا شیخ محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی، حاج سید ابوالحسن رفیعی قزوینی اور مرحوم آقا میرزا علی اکبر حکمی یزدی، آیت اللہ حاج میرزا جواد ملکی تبریزی (اعلی اللہ مقامہم) ایسے درخشاں ستارے ہیں جنہوں نے اپنے الہی افکار و خیالات سے امام کے فکری اور علمی مقام و مرتبہ کو شکل دی ہے۔ آپ کی فقہی اصولی، رجالی، فلسفی، تفسیری، کلامی، عرفانی اور سیاسی شخصیت بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
ان تمام اکابر اساتذہ کے درمیان امام کے استاد حکیم اور عصر حاضر کی عظیم عارف آیت الحق حاج میرزا محمد علی شاہ آبادی کی خاص پہچان اور الگ درخشندگی ہے۔ اس طرح سے کہ آپ کا اثر امام کی پوری زندگی میں دکھائی دے گا۔ خواہ فکری زندگی ہو یا عملی اور عرفانی، امام خمینی (رح) جہاں بھی اپنی فقہی اور اخلاقی کتابوں میں مرحوم آیت اللہ شاہ آبادی کا ذکر کیا ہے بہت ہی احترام کے ساتھ کیا ہے اور خود کو ان کے عقیدتمندوں اور مریدوں میں رکھا ہے اور کتاب "جنود عقل و جہل" کی شرح کرتے ہوئے "ادام اللہ ظلہ علی رووس مریده" استعمال کیا ہے اور اس سے اپنی حد درجہ عقیدت اور انس و محبت کا اظہار فرماتے ہیں۔ اور کتاب "سرالصلوة" میں ان کے نام کے بعد "روحی فداه" کا استعمال اپنی ان سے محبت کو بتارے ہیں۔
اس بنیاد پر اس بات کی طرح توجہ رکھنی چاہیئے کہ امام خمینی (رح) کے بہت سارے علمی اور عملی اصول اور بنیادوں کا سرچشمہ مرحوم آیت اللہ شاہ آبادی کی عرفانی اور انسانی تربیت کا نتیجہ ہے۔ غور و خوض کرنے پر یہ نکتہ بخوبی واضح ہوگا کہ امام خمینی (رح) کے عرفانی آثار میں اس کی تجلی اور روشنی بہت زیادہ ہے۔
راہ حق میں پائیداری، مصائب و آلام برداشت کرنا، نشیب و فراز سے گذرنا اصلی مقصد تک رسائی اور بلند و بالا انسانی اور الہی درجات کو پانے، صراط مستقیم پر چلنے کے لئے جہاد و اجتہاد اور کجروی اور انحراف سے اجتناب و دوری کو عظیم الشان امام کی شخصیت کے خصوصیات میں شمار کرنا چاہیئے۔ امام خمینی (رح) اپنی شخصیت کو الہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کے اصلی مآخذ کی روشنی میں اپنی صحیح راہ کی تشخیص دیتے ہیں اور صحیح راہ تشخیص دینے کے بعد اس راہ کو طے کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اگرچہ دنیا کی ساری طاقتیں اور افواج آپ کے مقابلہ میں آجائیں۔ میری نظر میں امام کی یہ خصوصیت آیت اللہ شاہ آبادی کی دین ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (رح) خود ہی کتاب "سرالصلوة" میں سیر و سلوک میں پائیداری کے باب میں لکھتے ہیں:
"اہل سلوک کے نزدیک مقام انسانیت تک استقامت و پائیداری اور تفریط سے خارج ہونا یہودی ہوتا ہے اور اس میں افراد نصرانی ہوتا ہے؛ "ما کان ابراہیم یہودیا و لا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما" (آل عمران، 67) ایک حدیث میں ہے کہ رسولخدا (ص) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور اس کے اطراف و جوانب میں کچھ خطوط کھینچ دیئے اور فرمایا: یہ سیدھی لکیر میرا راستہ ہے۔ شیخ عارف کامل شاہ آبادی روحی فداہ فرماتے ہیں: یہ فرمائش اس لئے کہ امت کی استقامت کا بھی آپ سے مطالبہ تھا۔"
گویا امام خمینی (رح) اپنے بلند و بالا مقصد کو پانے کے لئے اپنے استاد کی اسی تجلیل پر نظر رکھی اور طاغوت سے مقابلہ اور مجاہدت کی راہ میں امت مسلمہ کی پائیداری کی بھی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی اور اس طرح سے ایرانی عوام کو پائیداری کی دعوت دی۔ امام خمینی (رح) کتاب "سر الصلوة" پر لکھتے ہیں:
شیخ عارف کامل شاہ آبادی روحی فداہ فرماتے تھے: انسان ذکر کرتے وقت اس شخص کی طرح ہو جو اپنی بات بچہ کے منہ میں ڈالتا اور بولنا سکھاتا ہے، تا کہ بولنے لگے، اسی طرح انسان ذکر کو اپنے دل میں ڈالے۔
حضور قلب اور مسلسل ذکر الہی مردان الہی کے خصوصیات اور امام (رح) کے بھی خصوصیات میں ہے، اور اس کے تحقق کی صورت میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، امام خمینی (رح) کے اندر اس خصوصیت کا ہونا استاد کامل شاہ آبادی کی تعلیمات کا اثر اور امام کے ساتھ خاص اہتمام کا نتیجہ ہے۔ خلاصہ اگر کوئی انسان کسی بہتری اور صلاح و فلاح کا خواہاں ہو تو وہ کسی با اخلاق، اہل علم اور سیر و سلوک کی شاگردی ضروری ہے لیکن صرف شاگردی کافی نہیں ہے بلکہ شاگرد میں استاد کی بات قبول کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیئے۔