تیرا ورود ارضِ وفا پر تھا یادگار / تیرا وجود سرِ ازل تھا ابد شکار
تو راز دار کُن تھا، خدا کی دلیل تھا / تو حُسن و اعتماد خُدائے جلیل تھا
اِک نَیرِ شعورِ مشیت ترا کلام / اِک آیہ نمود تجلی ترا پیام
فرعونیتِ شاہ ترے آگے گرد تھی / لاریب سامراج کی ہر آنکھ زرد تھی
حق آگیا تو شب کا جگر چاک ہوگیا / چشم زدن میں سارا لہو پاک ہوگیا
ایران شمعِ نور سے معمور ہوگیا / تہران جلوہ گاہ شبِ طور ہوگیا
ایران آج پاک ہے وہم و گمان سے / زندہ ہے دو جہان میں نئی آن بان سے
پھیلی ہے قصرِ کُفر میں قرآن کی روشنی / ایوانِ فکر و ہوش نے پائی ہے آگہی
اِک زلزلہ سا آیا خمینی کے نام سے / پھر ابتدا ہوئی ہے درود و سلام سے
ایران کمالِ عشق کی منزل ہے آج کل / سارے جہاں میں رونقِ محفل ہے آج کل
کس نے اسے تبسم امکاں عطا کیا / اس نے اسے شعورِ فراواں عطا کیا
لُطف و کرم کی موجِ درخشان ہے اس کا نام / صدق و صفا و فقر کا عرفان ہے اس کا نام
اس کا جلال سلطنت کفر کا زوال / اس کا جمال صبر و رضا عالم مثال
جُھکتا تھا اس کے نقشِ کفِ پا پہ آسماں / وُہ مظہرِ صفاتِ خُداوندِ دوجہاں
انساں کو عظمتوں کا سزاوار کر گیا / خود آسمان تھا ارضِ بقا میں اُتر گیا
انساں ہیں کہ جن و ملک اشتیاق میں / روئیں گے اُس کی یاد میں اس کے فراق میں