مرنے کے بعد کی زندگی میں مرد اور عورت کی جنسیت اور اس کی صنف کی جانب توجہ نہیں دی گئی ہے بلکہ جنت اور جہنم اس کے اہل کے لئے ہے اور جو لوگ ان میں سے جس کے مستحق ہیں ان کے لئے ہے۔ اس دنیا (آخرت) میں انسانوں کی ان کے اعمال اور مراتب کے لحاظ سے درجہ بندی ہوگی نہ جنسیت کے لحاظ سے۔ وہاں اپنی جنتی اور جہنمی زندگی کا آغاز کریں گے تو ایمان اور عمل صالح ہی کے اعتبار سے۔
یقینا اس امر میں انسانوں کی جنس کارساز نہیں ہے۔ ہر شخص کے اعمال کی رسیدگی کے بعد دنیوی انتساب سے قطع نظر اس کے آئندہ حال روشن ہوجائے گا۔ اہل جنت اور جہنم ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور اہل جنت کی ان کے اپنے ایمانی مراتب کے لحاظ سے طبقہ بندی ہوگی۔ ایک آیت میں خداوند رحمان فرماتا ہے: "خداوند عالم نے مومن مرد اور عورت کو اس جنت کا وعدہ دیا ہے جس میں نہریں جاری ہوں گی اور اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور بہشتی باغات میں پاک و پاکیزہ اور اچھی زندگی کے مالک ہوں گے اور رضوان الہی کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ یہ وہی عظیم کامیابی ہے۔" یا صاحبان دوزخ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "خداوند عالم نے منافق اور کافر مرد اور عورت کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں اور یہ ان کا حساب اور خدا نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب رکھا ہے۔"
خداوند عالم کی کرامت اور شرافت کسی ایک جنس سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بلکہ خدا نے نوع انسان کو اس فضیلت سے نوازا ہے۔ اور خدا کے حضور جو چیز فضیلت اور اعتبار رکھتی ہے وہ اس کا تقوی اور پرہیزگاری ہے۔ البتہ اس دنیا میں یہ محاسبہ انسانی حقوق سے بہرہ مند ہونے میں کوئی دخل نہیں رکھتا۔ خداوند عالم نے اپنی تمام نعمتیں انسانوں کے اختیار میں قرار دی ہے (مومن ہو یا منافق، مسلم ہو یا کافر) زمین میں الہی نعمتوں سے فیضیاب ہونے میں فرد کا ایمان فضیلت و برتری نہیں رکھتا اگر چہ وہ خدا کا خالص اور مقرب بندہ ہی ہو۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے: "اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو گروہ اور خاندان میں قرار دیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچانو (اس لحاظ سے خاندان برتری کا معیار نہیں ہے) ورنہ خدا کے نزدیک تو وہ سب سے زیادہ کرامت اور شرافت والا انسان ہے جو سب سے زیادہ تقوی رکھتا ہے۔"
مرنے کے بعد انسان کے وہی کام آئے گا جو اس نے دنیا میں وہاں کے لئے ذخیرہ کیا ہوگا اور آخرت کے لئے بھیجا ہوگا۔ وہاں نہ مرد و عورت کی بات ہوگی اور نہ ہی خاندان و قبیلہ بلکہ وہاں صرف اور صرف خالص عمل، خدا کی بندگی اور تقوی کو معیار بنایا جائے گا۔ دنیا میں جو بھی برتری کا معیار قائم ہے اور معاشرہ میں اس کی حکمرانی ہے وہ خدا سے بے خبر دین کے حقائق سے ناواقف بندوں کے بنائے ہوئے معیار ہیں۔ فضیلت، علم و عرفان، شعور و آگہی، تقوی و پرہیزگاری سے ہے نہ خاندان، جاہ و حشم، مال و منال، مقام و مرتبہ، چرب زبانی سے وہاں نہ کسی کی خوشامد اور چاپلوسی کام آئے گی اور نہ ہی ہدیہ اور رشوت دے کر اپنا کام بنانے کا سوال ہوگا۔ وہاں پارٹی بازی اور سورس سے کام نہیں چلے گا۔ ہاں اگر وہاں کوئی کام آئے گا تو بس خدا کے اصول کے مطابق اعمال صالحہ اور اس کی ولایت مطلقہ سے وابستگی اور اس کے نمائندوں کی ولایت کا اقرار ہے۔