26/ صفر کو پیغمبر اسلام (ص) نے اسامہ بن زید کو حکم دیا کہ جتنا جلد ہوسکے مہاجرین و انصار کے بڑے لشکر کے ساتھ موتہ؛ فلسطین کی جانب رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے نکل جاؤ اور آپ نے اسامہ کے ہمراہ ابوبکر اور عمر جیسے لوگوں کا نام لیا کہ یہ لوگ بھی تمہارے ساتھ جائیں گے اور لشکر کو منظم کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس وقت اسامہ نے کہا کہ آپ بیماری کے عالم میں ہیں، ہمارا آپ کو چھوڑ کر جانے کا دل نہیں چاہتا۔ حضرت (ع) نے فرمایا: ہرگز، امر جہاد کو کسی عذر کی بنا پر پامال نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگوں نے اسامہ کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا لیکن رسولخدا (ص) نے پوری سنجیدگی اور مضبوطی کے ساتھ ان کی تائید اور حمایت کی۔
آخر کار اسامہ حکم کے مطابق مدینہ سے نکل گئے اور مدینہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر چھاونی بنائی اور مدینہ میں رسولخدا (ص) کا منادی مسلسل آواز لگا رہا تھا کہ "کہیں کوئی لشکر اسامہ سے چھوٹ نہ جائے" ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ جراح نے تیزی کے ساتھ خود کو لشکر اسامہ تک پہونچادیا۔ آہستہ آہستہ رسولخدا (ص) کا مرض بڑھتا گیا اور جو لوگ مدینہ میں تھے وہ پیغمبر (ص) کی عیادت کو گئے اور رسولخدا (ص) کے پاس سے آنے کے بعد سعد بن عبادہ کی بھی عیادت کو گئے۔ خلاصہ اسامہ کے روانہ ہونے کے دو دن بعد رسولخدا (ص) دارفانی سے دار جاودانی کی جانب روانہ ہوگئے۔ پورا شہر، نالہ و شیون میں غرق ہوگیا اور لشکر مدینہ واپس آگیا۔ ابوبکر سیدھے مسجد النبی میں آیا اور آواز دی: "اے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ بے حال ہورہے ہو؟ اگر محمد مرگئے ہیں تو محمد کا خدا تو زندہ ہے" اس وقت انصار کی ایک جماعت سعد بن عبادہ کی طرف گئے اور انہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں لے کر آئے۔ جب عمر نے سنا تو ابوبکر کو خبر دی اور دنوں ہی ابوعبیدہ جراح کے ہمراہ سقیفہ پہونچ گئے۔
وہاں پر لوگ جمع تھے اس وقت ابوبکر نے تقریر کی اور کہا: لے لوگوں تم لوگ ان دونوں (عمر یا ابوعبیدہ) میں سے کسی ایک کی بیعت کرو کیونکہ یہ دونوں ہی اس امر (خلافت) کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ لیکن عمر اور ابوعبیدہ دونوں ہی نے کہا: ہم تم پر سبقت نہیں کرسکتے کیونکہ تم اسلام میں ہم سے پہلے ہو اور رسولخدا کے یار غار بھی تھے۔ اس کے لئے آپ ہی زیادہ مناسب ہیں۔
انصار نے کہا: ہمیں ڈر ہے کہ کوئی ایسا اس منصب پر آجائے جو نہ تم میں سے ہو اور نہ ہم میں سے ہو لیکن بہتر یہی ہے کہ ایک امیر ہمارے میں سے ہو اور ایک امیر تمہارے میں سے ہو۔ ابوبکر نے جب یہ سنا تو اٹھ کر سب سے پہلے مہاجرین کی تعریف کی اور اس کے بعد انصار کی مدح و ثنا کی اور کہا: تم گروہ انصار کا امتیاز، فضیلت اور اسلام و مسلمین پر جو تمہارا حق ہے وہ ناقابل انکار ہے۔ کیونکہ تم ہی لوگوں کو خدا نے دین کا ناصر اور رسولخدا کا یاور کہا ہے اور تمہارے شہر کو پیغمبر کی ہجرت کا مرکز قرار دیا ہے اور سابق مہاجرین کے بعد تم لوگوں کے مقام و مرتبہ کے برابر کوئی نهیں ہے۔ لہذا مناسب یہی ہوگا کہ وہ لوگ امیر ہوں اور تم لوگ وزیر ہو۔ یہ سن کر حباب بن منذر اٹھا اور انصار سے جذباتی اور ہیجان آور بیانات کے ضمن میں کہا: کہیں ابوبکر کی یہ پیشکش قبول نہ کرلو کہ ایک امیر ان کا ہو اور ایک امیر ہمارا ہو۔ اس وقت عمر نے اٹھ کر کہا: ہرگز ایسا نہیں ہوگا اور ایک غلاف میں دوتلوار نہیں ہوگی۔ عرب اس بات پر کیسے راضی ہوں گے کہ رسولخدا کسی اور خاندان سے تھے اور ان کا جانشین کسی اور خاندان سے ہو۔ ہم لوگ پیغمبر کے خاندان اور قبیلہ کے ہیں اس وجہ سے جانشینی کے مسئلہ میں اولویت رکھتے ہیں۔ اس مسئلہ میں فتنہ انگیزوں کے سوا کوئی ہماری مخالفت نہیں کرے گی۔حباب بن منذر دوبارہ اٹھا اور کہا کہ اس نادان اور اس کے ساتھیوں کی بات نہ سنو۔ اگر یہ لوگ ہماری باتیں نہیں مانیں گے تو ہم لوگ انہیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کریں گے۔
خلاصہ اس طرح مکر و حیلہ اور عوام فریبی کر کے خلیفہ بن گئے۔ یہ لوگ خلیفہ بننے اور بنانے میں لگے تھے اور حضرت علی (ع) رسولخدا (ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول تھے۔ داستان طویل ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی پر دنیا کا غلبہ ہو اور اس کی نفسانی خواہشات اللہ و رسول، دین و ایمان اور قرآن کی مخالفت کرنے پر آمادہ کریں اور شخص ہوا و ہوس کی پیروی کرکے لوگوں کو ہدایت کرنے کے بجائے گمراہ کرے اور زمین پر فساد پھیلائے ، انسانیت کا جنازہ نکالے اور راہی جہنم کردے۔