جب حر نے امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب و انصار کا کربلا میں محاصرہ کرلیا اور انہیں اس سے آگے جانے سے روک دیا تو کوفہ میں یزید کے کارگزار ابن زیاد نے یزیدی لشکر کی کمانڈری عمر بن سعد کی حوالہ کردیا۔ اس کے بعد عمر بن سعد چار ہزار کے لشکر کے ساتھ 3/ محرم کو کربلا پہونچ گیا اور لشکر یزیدی کی کمانڈری اپنے ذمہ لے لی۔
عمر بن سعد واقعہ کربلا سے پہلے "ری" حکومت کا منصب ابن زیاد سے لے چکا تھا لیکن امام حسین (ع) کی یزید کی مخالفت اور اس کی بیعت کے انکار کے بعد ابن زیاد نے عمر سعد کو حکومت ری دینے کو مشروط کردیا تھا کہ اس وقت "ری " کی حکومت ملے گی جب تم امام حسین (ع) کا کام تمام کروگے۔
عمرسعد نے "ری" کی وسیع حکومت کی لالچ میں (کہ کبھی میسر نہ ہوئی)یزیدی لشکر کی کمانڈری قبول کرلی اور عظیم غیر انسانی جرائم کا مرتکب ہوا۔ جس دن سے عمر سعد کربلا آیا تھا اس دن سے مسلسل ابن زیاد کی طرف سے لشکر آرہے تھ۔ ایک روایت کی بنا پر 6/ محرم تک عمر سعد کے لشکر کی تعداد 20/ ہزار سے زیادہ ہوگئی تھی۔
عمر سعد ابی وقاص یزید بن عمال کا بھی عامل تھاجو یزید کے چند ہزار لشکر کی سپہ سالاری کررہا تھا۔ یہ ملعون رہی ہے جس نے "حجر بن عدی" کے خلاف فتنہ انگیزی کی گواہی دی اور حجر کے "مرج عذراء" میں شہید ہونے کا سبب ہوا۔
اسی عمر سعد ملعون کے حکم سے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے جسم نازنین پر گھوڑے دوڑائے گئے اور آپ کے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے کچلا گیا۔ اسی ملعون ے آمد کے بعد اہل حرم اور اولاد رسول اکرم (ص) پر سختیاں بڑھ گئیں، ان کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا گیا، آل رسول اور اصحاب امام حسین (ع) کے بچوں میں گھبراہٹ، خوف و دہشت پیدا ہوئی۔ 3/ محرم کے بعد سے ان پر رفتہ رفتہ دنیا تاریک ہونے لگی، مظالم بڑھنے لگے، اصحاب امام حسین (ع) کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ کیونکہ کوفہ سے ہر آن افواج آنے لگیں۔ اس ملعون کی بدنیتی، دنیا دوستی، ملک پرستی، اور نفس پرستی اور یزید کی بندگی کا اتنا دلدادہ اور عاشق ہوگیا تھا کہ اس نے ایک پل کو بھی یہ نہیں سوچا کہ جو ہم کررہے ہیں یا کریں گے وہ کس کے ساتھ کررہے ہیں ، وہ کون ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں۔ اسے دین اور دینداری کی پرواہ نہیں تھی، یہ ملک "ری" کا بھوکا تھا، یہ دولت اور ثروت کا خواہاں تھا، یہ مردار دنیا کا شیفتہ تھا۔ اسے نہ رسولخدا (ص) کا پاس و لحاظ رہا نہ حضرت علی (ع) نہ حضرت زہراء (س) کا کچھ خیال رہا۔ اس نے انسانیت کے سارے رشتوں کو تارتار کردیا۔ اس نے بے حیائی اور بے شرمی کی انتہا کردی۔ اسے ملک "ری" کے حصول میں جنت نظر آرہی تھی۔ اس نے ذرہ برابر اس بات کی فکر نہیں کی کہ میری اس ناپاک حرکتوں اور ظالمانہ رویوں سے انسانیت اور انسانیت کے رہبر اور پیشوا پر ظلم ہورہا ہے۔ اور اس کا نتیجہ جہنم اور اس کے دھکتے شعلے ہوں گے۔
عمر سعد نے نواسہ رسول (ص) پر عرصہ تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جس طرح ممکن ہوا امام حسین (ع) کو یزید کی بیعت پر مجبور کیا لیکن امام حسین (ع) رسولخدا (ص) کے نواسہ، شیر خدا علی (ع) کے فرزند اور حضرت زہراء (س) کے لخت جگر تھے۔ آپ نے انکار بیعت کے سلسلہ میں تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں ہے اور ایک قانون دے دیا کہ جو بھی حسین (ع) جیسا ہوگا وہ بھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔
امام حسین(ع) نے سر دے دیا لیکن بیعت نہیں کی۔ سارے رنج و الم سہہ لئے لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔