قوم یہود ابتداء میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی لیکن مختلف اسباب و وجوہات جیسے اختلافات، غداریاں و غیرہ کی وجہ سے یہ اتحاد اور یکجہتی ختم ہوگئی۔ بہت سارے لوگوں نے اپنی سرزمین کو ترک کردیا اور ان میں سے بعض سرزمین حجاز کی طرف ہجرت کرگئے۔ یہ گروہ اس شہر اور اس کے اطراف میں عمارتیں بنانے اور مضبوط قلعے تعمیر کرنے میں مشغول ہوگئے اور وہاں سکونت اختیار کرلی۔
یہود کے مشہور قبائل یہ ہیں: بنی قریضہ، بنی نضیر اور بنی قینقاع۔
رسولخدا (ص) کا یہود سے رابطہ اچھے پڑوسی اور صلح آمیز روابط کی بنیاد پر تھا اور ان کی انسانی حرمت کا پاس و لحاظ کیا۔ حضرت (ص) نے خود ان کے اجتماعی جلسوں میں شرکت کرتے تھے، مریضوں کی عیادت کرنے کو جاتے تھے اور یہودیوں کے تشییع جنازہ کے پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔
حضرت رسولخدا (ص) نے ایک ارشادی اور حکومتی دستور العمل میں "عمرو بن حزم" کو یمن بھیجا اور ان سے تاکیدا کہا کہ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراو اور آپ نے انہیں لکھا کہ یمن کے تمام لوگوں حتی یہود و نصاری کی نسبت بھی اسلام کی تعلمات دیں۔ 21/ فقرہ میں یہ عہد نامہ ذکر ہوا ہے: جو یہودی یا عیسائی مسلمان ہوجائے اور اسلام کا خلوص کے ساتھ اظہار کرے مومنین اور مسلمانوں کے گروہ سے ہے اور جو کچھ مسلمانوں کے پاس ہے اس میں وہ بھی شامل ہے اور ان کے نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے اور جو شخص اپنی یہودیت اور نصرانیت پر باقی رہے تو اسے اس کے دین کو ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
دنیا کا کوئی بھی انسان ہو ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) نے انسانوں کے ساتھ انسانیت کی روشنی میں کام کیا ہے۔ اور ہر طرح انسان کے ساتھ خیر خواہی کی ہے۔ انسانیت کو بچانے اور اس کی صحیح شناخت کرانے کی کوشش کی ہے۔ دین اور مذہب سے ہٹ کر انسانی اصول پر کام کئے ہیں اور تمام انسانوں کو مسلمان ہو یا کافر، مشرک ہو یا مومن، انسانی اصول پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی۔
کبھی آپ (ص) نے یہودی، عیسائی اور مسلمان کے درمیان انسانی اصول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا۔ سب کو یہی تعلیم دی کہ انسان بنو، زندگی گزارنے کی اصول بناو اور بناکر اس پر عمل کرو، تمہیں خود بخود راہ حق اور باطل سمجھ میں آجائے گا۔ تم خود ہی فیصلہ کرنے لگو کہ حق کون ہے اور کون باطل، کون سچا ہے اور کون جھوٹا، کون مومن ہے اور کون مشرک اور منافق، کون اچھا انسان ہے اور کون برا، کون اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کے اصول و فرامین پر عمل کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔
اگر انسان اپنی فطرت اور خلقت کی جانب نظر کے اور اس کے بارے میں غور و خوض کرے تو اس پر حقائل روشن ہوجائیں گے اور وہ حق کا ادراک کرسکتا ہے، شرط عقل و شعور کا استعمال کرکے سچائی کا سمجھنا اور صحیح و غلط کے درمیان تمییز کرنا ہے۔ رسولخدا (ص) عالمین کے رحمت ہیں، آپ کی تعلیمات دنیا کے سارے انسانوں کے لئے ہیں، آپ نے الله کی کتاب قرآن سے ہر اسنان کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے اور اس راہ پر چل کر بتایا ہے۔
رسولخدا (ص) یہودیوں کی بدرفتاری اور ان کے ناروا سلوک پر صبر کرتے تھے اور ان کی نفاق سے چشم پوشی کرتے تھے اور انہیں مسلمانوں کے برابر سمجھتے تھے اور ان کے دینی آداب و رسوم کا احترام کرتے تھے۔ یہودیوں سے کئے ہوئے عہد وپیمان پر استوار اور کاربند تھے۔ اگر کوئی یہودی اپنے معاہدہ کے خلاف کام کرتا تھا تو صرف اسے سزا دیتے تھے اور اس کے گناہ کی وجہ سے دوسروں کا مواخذہ نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ "کعب بن اشرف" اور "ملام بن حقیق" کے بارے میں جنہوں نے مسلمانوں سے خیانت کی تھی، یہی روش اور طریقہ اپنایا اور دیگر یہودیوں سے کوئی سروکار نہ رکھا۔ در حقیقت پیغمبر اکرم (ص) کی یہودیوں کے ساتھ رویہ کفار قریش اور عرب کے دیگر قبائل کی نسبت بہت ہی نرم تھا۔
تاریخی شواہد کی روشنی میں رسولخدا (ص) مختلف موقعوں پر یہودی کے ساتھ انسانی کرامت، شرافت اور قدر و منزلت پر مبنی محترمانہ رویہ رکھتے تھے اور آپ نے ہمیشہ انسانی کرامت اور شرافت کا پاس رکھا اور اسی پر عمل کرنے کی تائید فرماتے تھے۔