جگر گوشہ رسول، دلبند بتول، جگر پارہ علی اور شیعوں کے تیسرے معصوم امام حضرت امام حسن مجتبیٰ(ع) 15/ رمضان سن 3/ ھ ق کی شب کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تقریبا 7/ سال تک پیغمبر اکرم (ص) کے زیر سایہ زندگی گزاریں اس کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ 30/سال تک زندگی گزاری۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد 10/ سال تک امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور 28/صفر سن 50/ ھ ق کو 47/ سال کی عمر میں معاویہ بن ابوسفیان کے حکم سے جعدہ بنت اشعث کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور اسی زہر کی وجہ سے آپ کی شہادت ہو گئی۔
امام حسن مجتبی(ع) کی شہادت کی کیفیت
اموی حکومت نے امام حسن (ع) کو صلح کرنے پر مجبور کر کے اپنے بہت سارے مقاصد کو حاصل کر لیا تھا لیکن ان کے بعض ناپاک ارادوں کے عملی ہونے سے امام حسن(ع) کا وجود مانع ہو رہا تھا۔ منجملہ اموی حکومت اپنا جانشین معین کر رہی تھی اور اس کا اجراء امام حسن سے صلح نامے پر ذکر شدہ معاہدہ کے مفاد کے خلاف تھا۔ اس لئے آپ کے وجود سے وحشت میں تھی اور جانتی تھی کہ یہ جب تک زندہ رہیں گے ان کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہو گا؛ کیونکہ امام حسن(ع) کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا اس کے لیے اس نے فیصلہ کر لیا کہ جیسے بھی ممکن ہو امام حسن کو راستے سے ہٹانا دیا جائے اور اس نے اپنے ناپاک ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دلبند رسول اور جگر گوشہ بتول کو شہید کرانے کے لئے آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کو اس کے لئے مناسب ترین فرد جانا اور خفیہ طریقہ سے 100/ ہزار درہم بھیج کر اس سے کہا کہ اگر حسن بن علی کو شہید کر دو گی تو میں یزید سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ اس طرح سے جعدہ نے معاویہ کے ناپاک ارادے کو عملی کرنے کے لیے اپنے ہی شوہر امام حسن کو زہر پلادیا۔ جس کی وجہ سے بہت جلد ہی 28/ صفر کو آپ کی شہادت ہو گئی۔
امام حسن کی وصیت
امام حسن علیہ السلام کو زہر پھیلا دیا گیا اور آپ کی حالت بگڑگئی تو آپ کے چھوٹے بھائی امام حسین علیہ السلام آپ کے سرہانے آئے۔ جب اپنے بھائی کا حال پوچھا تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میں خود کو آخرت کے پہلے دن اور دنیا کے آخری دن میں دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا: میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہوں اور اس بات کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور صرف اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ جو شخص بھی اس کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ گمراہ ہوگا اور جو شخص اس کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ کرے وہ ہدایت پائے گا۔ اے حسین! مجھے میرے جد رسول خدا کے پہلو میں دفن کرنا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کام سے کوئی روکے نہیں اگر تمہیں اس کام سے روکا جائے تو اس پر اصرار نہ کرنا؛ کیونکہ میں اس کام کی وجہ سے زمین پر خون بہایا جانے پر راضی نہیں ہوں۔
جب امام حسن(ع) کے جنازے کو آپ کے جد محمد مصطفی کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا گیا تو امام حسین (ع) نے جنازہ کو بقیع میں لے جانے کا حکم دیا اور آپ کو آپ کی جدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ ابن شہر آشوب کی روایت کی روشنی میں جب امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی کو سپرد لحد کر چکے تو آپ نے اس مضمون کے اشعار پڑھے:
اب جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو کفن پہنایا ہے اور خود ہی سپرد لحد کیا ہے کس طرح سے آپ کے بعد شاد و مسرور رہوں اور خود کو دنیاوی زینتوں اور اسباب سے فیض یاب کروں، میں اس کے بعد آپ کے غم میں آنسو بہاوں گا اور آپ کے غم میں میرا غم و اندوہ طولانی ہوگا لٹا ہوا اسے نہیں کہتے جس کا مال اور اسباب لٹ گیا ہوں بلکہ لٹا ہوا وہ ہے جس نے اپنے بھائی کی موت کی مصیبت دیکھی ہو۔
امام حسن علیہ السلام کے اقوال زرین
جو شخص سلام کرنے سے پہلے گفتگو کرنا چاہے اس کی باتوں کا جواب نہ دو۔
خاموشی عیوب کو پوشیدہ کرتی اور آبرو کی حفاظت کرتی ہے جو شخص اس صفت کا مالک ہو وہ ہمیشہ سکون سے رہتا ہے اور اس کا ہمدم اور ساتھی بھی سکون سے رہتا ہے۔
امام حسن سے سوال ہوا کہ عظمت و بزرگی کے چیز میں ہے؟ آپ نے فرمایا: ضرورت کے وقت ضرورت مندوں کو مال دینا اور خطا کو معاف کرنے میں ہے۔
امام خمینی فرماتے ہیں: معاویہ اس وقت ایک سلطان تھا اور امام حسن علیہ السلام نے اس کے خلاف قیام کیا جبکہ اس وقت تمام لوگوں نے اس نا مرد کی بیعت کی تھی اور سلطان سمجھ رہے تھے۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے قیام کیا اور جب تک کر سکے لیکن ایک اوباش گروہ نے یہ کام ہونے نہیں دیا۔ ایسے حالات میں آپ صلح کی جس نے معاویہ کو رسوا کردیا امام حسن نے معاویہ کو اتنا ہی رسوا کیا ہے جتنا امام حسین نے یزید کو۔