روس کے وزیر خارجہ

امام خمینی (رح) اور روس کے وزیر خارجہ کی ملاقات

جناب گورباچف نے میرے خط کے اصلی مطالب و مفاہیم کا تو جواب ہی نہیں دیا

جس دن روس کے وزیر خارجہ کو "گورباچف" کا جواب لے کر امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہونا تھا، اس دن امام (رح) اپنے معمول سے ہٹ کر، (کیونکہ امام (رح) ہمیشہ پورے آٹھ بجے اپنے مسند پر تشریف لایا کرتے تھے) آٹھ بجے ملاقات کے کمرے میں تشریف نہ لائے، لہذا روس کا وزیر خارجہ، جمہوری اسلامی ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ، کمرے میں کھڑے، امام (رح) کا انتظار کررہے تھے، ان کی مہمانی کے لئے پہلے ہی سے دو کام ہو چکے تھے۔ ایک تو یہ کہ پہلی مرتبہ، ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا جاچکا تھا، البتہ وہ بھی کسی سے مانگ کر لائی گئیں تھیں، اور دوسرا یہ کہ حاضرین کے لئی حاج عیسی ایک ٹرے میں چند کپ چائے کے لائے تھے اور حاضرین اسی طرح کھڑے ہو کر ہی پی رہے تھے سوائے، روس کے سفیر کے مترجم کے، کیونکہ وہ بھی اپنے وزیر خارجہ کے ساتھ اس کے کمرے میں تھا، اور باقی تمام افراد صحن میں تھے۔

کمرے کی فضا پر ایک سنگین انتظار حاکم تھا، آخر کار، امام خمینی (رح) تقریبا ساڑھے آٹھ بجے اسی سادہ لباس اور بغیر کسی بناوٹ کے عادی حالت میں کہ جو ٹیلی ویژن پر آپ (رح) نے دیکھی ہوگی، کمرے میں داخل ہوئے اور بغیر کسی تامل اور توقف کے اور اسی طرح کسی کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر، حاضرین کے درمیان سے گزرتے ہوئے سیدھے اپنی مسند پر تشریف فرما ہوئے۔ اسی حالت میں روس کا وزیر خارجہ کے لئے یہ منظر بہت حیران کن تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ جوتے اتار کر ایک سادہ سے کمرے میں ایک پرانی قالین پر قدم رکھا تھا، اور اسی طرح ایک بزرگ ترین رہبر الہی کہ جس کی معنوی اور عرفانی شخصیت نے استکبار جہان کے تمام محلوں کو لرزادیا تھا، کو نزدیک سے دیکھا تھا۔

اب مجھے معلوم نہیں کہ گورباچف کا جواب پڑھتے وقت اس کا ہاتھ، پاؤں کا کانپنا اور زبان کا لڑکھڑانا اس کی ضعیفی کی وجہ سے تھا یا  اس کا سبب کچھ اور تھا؟ جب پہلی مرتبہ وہ کرسی پر بیٹھا اس وقت بھی اس کی کیفیت غیر مستقر تھی کیونکہ اس بات کا اندازہ، اس کے پاؤں کے عدم تعادل سے ہورہا تھا۔ لہذا یہی کیفیت، اس کی اس وقت تک باقی رہی کہ جب تک وہ اس تھوڑے طولانی پیغام کی قرائت کرتا رہا، آخر کار وہ پیغام امام (رح) ہی کے الفاظ پر ختم ہوا، ہم سب حاضرین مجلس، اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ وہ مترجم کہ جو باقی تمام مقالات پر پورے تسلط کے ساتھ روان اور فرفر ترجمہ کیا کرتا تھا، یہاں پر اس کی بھی حالت غیر ہو چکی تھی، کیونکہ یہاں پر اس نے شاید ایک جملہ بھی کھانسی، اور گلو کو صاف کیے بغیر ادا نہیں کیا تھا۔

آخر کار گورباچف کا جواب اس کے ترجمے کے ساتھ، ختم ہوگیا۔ اس وقت ہم سب منتظر تھے کہ اب امام خمینی (رح) اس کی جواب میں کیا فرماتے ہیں۔ حاضرین ہمہ تن گوش، امام (رح) کی طرف دیکھ رہے تھے، اسی اثنا میں مشرق زمین کی سپر پاور کے نمائندے نے ایک بار پھر اپنی اسی پہلی حالت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد امام (رح) نے بغیر کسی مجادلہ کے باصراحت تقریبا ایک منٹ، اور تین فراز میں جواب دیا، امام نے ایک جملہ فرمایا:" جناب گورباچف نے میرے خط کے اصلی مطالب و مفاہیم کا تو جواب ہی نہیں دیا۔ " اس پر امام (رح) نے افسوس کا اظہار کیا۔ ابھی تک مترجم نے امام (رح) کے اس ایک جملے کے تیسرے فراز کے ترجمہ کا آغاز ہی کیا تھا کہ امام (رح) اٹھے اور اندر چلے گئے کہ جہاں پر امام (رح) کے دیدار کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد منتظر تھی، لہذا وہ لوگ اٹھے اور بے ساختہ امام (رح) کے ہاتھوں کو چومنے لگے لیکن اس مرتبہ امام (رح) کی ایک منفرد ہیبت تھی لذا کسی نے جرات تک نہ کی کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ سکے، اس لئے تمام لوگ دست بوسی بھی نہ کرسکے، یہاں تک کہ مصافحہ بھی نصیب نہ ہوا۔

ای میل کریں