کربلا

نواسہ رسولخدا (ص) سے جنگ کرنے کے لئے ابن زیاد کی تیاریاں

عمر سعد کے ہمراہ کربلا میں موجود لشکر کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے

5/ محرم الحرام سن 61 ق کو ابن زیاد (لعین) نے ایک شخص کو شبث بن ربعی کے پاس بھیجا تا کہ اسے کربلا روانہ کرے۔ شبث نے ان دنوں خود کو بیمار بنالیا تھا اور اس کا قصد یہ تھا کہ اس طرح سے ابن زیاد اسے کربلا جانے سے معاف کردے گا۔ لیکن ابن زیاد نے اسے پیغام بھیجا کہ کہیں تم ان لوگوں میں نہ ہوجاؤ جن کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن میں میں فرمایا: جب مومنین کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ه ایمان لانے والوں میں ہیں اور جب اپنے شیطان دوستوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں۔اس تحریر سے اسے بتایا کہ اگر تم میری حکم کی خلاف ورزی کروگے تو میرے پاس حاضر ہو۔

عمر سعد کے ہمراہ کربلا میں موجود لشکر کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے لیکن حکومت کے لقمہ خور اور حکومت سے تنخواہ لباس اور ہتھیار لینے والے سپاہیوں کی تعداد 30/ ہزار تھی۔ شبث بن ربعی بھی راتوں رات ابن زیاد کے پاس آیا اور ابن زیاد نے اسے مبارکباد دی اور اپنے پاس بیٹھا کر بولا: تمہیں کربلا جانا ہی پھر شبث نے قبول کرلیا اور ابن زیاد نے اسے ہزار سوار کے ساتھ کربلا بھیجا۔ اس کے بعد ابن زیاد نے زحر بن متین نامی شخص کو 500/ سوار کے ساتھ ماموریت دی کہ پل پر کھڑے ہوجاؤ اور حسین کی نصرت کو کوفہ سے جانے والوں کو روکو۔ لیکن یہ بدبخت اور ملعون، عامر بن ابی سلامہ کو نہ روک سکا کیونکہ انہوں نے اس پر اور اس کے لشکر پر حملہ کردیا اور حسین (ع) کی نصرت کرنے کربلا پہونچ گئے۔ خلاصہ پورے کوفہ میں بکھری ہوئی افواج آہستہ آہستہ اکھٹا ہوگئیں اور عمر سعد کے لشکر سے جاملیں۔

مفضل بن عمر نے حضرت امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حسین بن علی (ع) اپنے بھائی امام حسن (ع) کی خدمت میں پہونچے آپ انہیں دیکھا اور گریہ کرنے لگے۔ امام حسن (ع) گریہ کا سبب پوچھا تو امام نے فرمایا: اس مصائب پر رورہا ہوں جو آپ ہوں گے۔ اس پر امام حسن (ع) نے فرمایا: مجھے زہر سے شہید کریں گے لیکن میرا دن تمہارے دن کی طرح نہیں ہے۔ اے ابا عبداللہ! کیونکہ 30/ ہزار مرد جو امت رسولخدا (ص) کا دعوی کریں گے اور خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن تمہارے قتل کرنے اور تمہارا خون بہانے پر متحد ہوجائیں گے۔ تمہارے ہتک حرمت کریں گے۔ تمہاری عورتوں اور بچوں کو قیدی بنائیں گے۔ اور تمہارے اموال کو لوٹ لیں گے۔ اس وقت خدا بنی امیہ پر اپنی لعنت نازل کرے اور آسمان خون برسائے گا۔ اور دنیا کی ہر چیز یہاں تک جنگلی جانور اور مچھلیاں تم پر گریہ کریں گے۔

تاریخ کربلا کی ورق گردانی اور اس کے مطالعہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نواسہ رسول (ص) کے قتل کرنے والے، ان پر مصائب ڈھانے والے اور ظلم و جور کا سیلاب رواں کرنے والے محمد (ص) کے امتی ہی تھے۔ قرآن پڑھنے والے، نماز شب پڑھنے والے ہی تھے۔

ای میل کریں