محافظ دین اسلام، پاسبان ایمان و قرآن، صاحب نور و برہان، سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) نے پہلے مدینہ سے مکہ کیوں گئے؟ امام حسین (ع) کا قیام شیعہ اور اسلام کی تاریخ میں ایک مرکزی نقطہ اور محور ہے کیونکہ یہ قیام اور تحریک حقیقی اسلام کو رسولخدا (ص) کے بعد کے زمانے میں ایجاد شدہ انحرافات سے تحفظ کا باعث شمار ہوتا ہے۔
شیعہ تاریخ میں ایک مورد جس کی بہت اہمیت ہے، امام حسین (ع) کی مدینہ سے مکہ روانگی کا موضوع ہے اس کے بعد مکہ سے کوفہ کی سمت روانگی ہے۔
ماہ رجب کے دوسرے نصف میں یزید نے مدینہ کے حاکم اور والی ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ اپنے چند مخالف افراد سے ضرور بیعت لی جائے کہ ان میں سے ایک حسین بن علی، عبد الله بن عمر، عبدالله بن زبیر ہیں۔ اور بیعت لئے بغیر کسی کو نہ چھوڑنا۔ ولید بن عتبہ دستور پاتے ہی امام حسین (ع) سے بیعت لینے کا اقدام کیا اور جب امام حسین (ع) سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: یزید شرابی، فاسق و فاجر، فتنہ و فساد کو عام کرنے والا، ناحق خون بہانے والا انسان ہے اور میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ خلاصہ آپ نے اپنے زمانے کے فاسق و فاسد، بے حیا اور بے دین، شرابی اور بندر سے کھیلنے والے انسان کی بیعت سے انکار کردیا۔
ولید کے علاوہ مروان نے بھی حضر ت سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: اے دشمن خدا دور ہوجا، میں نے رسولخدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ (ص) نےفرمایا: خلافت اولاد ابوسفیان پر حرام ہے (اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو تیچے اتار دو) لیکن آپ کی امت نے ایسا دیکھا (معاویہ کو منبر رسولخدا (ص) پر بیٹھے دیکھا) لیکن آپ کے فرمان پر عمل نہیں کیا اور اب خدا نے فرمان رسول کی نافرمانی کی وجہ سے ان لوگوں کو یزید فاسق سے دوچار کردیا ہے۔
امام حسین (ع) 28/ رجب سن 60ق کی شب میں اپنے خاندان کے اکثر افراد اور بعض انصار کے ساتھ اپنے جد رسولخدا (ص) کو خداحافظ کہہ کر میدنہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے؛ کیونکہ جب آپ نے دیکھا کہ یزید کی کھلم کھلا مخالفت، اس کے خلاف قیام کے مدینہ میں شرائط نہیں ہیں اور ماحول سازگار نہیں ہے اور کسی موثر حرکت کے بغیر جان کو خطرہ بھی ہے تو آپ نے مدینہ کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت جس آیت کی تلاوت کی تھی ؛ سے سفر کی علت واضح ہوجاتی ہے: "موسی اپنے شہر سے خوف کے عالم میں نکل گئے اور ہر آن کسی حادثہ کا انتظار کررہے تھے کہا: خدایا! مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔"
امام (ع) کے مکہ کا سفر کرنے کی وجوہات
1۔ ابھی مختلف شہروں کے لوگ معاویہ کی موت سے باخبر نہیں ہوتے تھے اور لوگ یزید کی مخالفت کرنی کے لئی سنجیدہ نہیں ہوئے تھے۔
2۔ امام حسین (ع) کو دیگر شہروں منجملہ کوفہ سے اس وقت تک دعوت نامہ نہیں ملا تھا۔
3۔ امام (ع) اپنی ہجرت کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں مکمل آزادی اور امن و امان کے ساتھ اپنے نظریہ کا اظہار کرسکیں، قرآن کی صرح آیت کی روشنی میں "و من دخلہ کان امنا" جو اس میں داخل ہوگیا محفوظ ہوگیا۔
4۔ اسلامی ممالک سے عمرہ کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں وہاں جمع ہونا اور اسی طرح حج تمتع کے ایام کا نزدیک ہونا اور لوگوں کا مناسک حج کی ادائیگی کے لئے شریک ہونے کی وجہ سے امام حسین (ع) نے مختلف گروہوں سے بخوبی ملاقات کر سکتے تھے اور اموی اور یزیدی مرکز کی مخالف کی وجہ بتا سکتے تھے اور ان سب کو معارف کے کچھ گوشہ بھی بیان کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی شہروں منجملہ کوفہ اور بصرہ سے رابطہ میں رہیں۔
آخر میں امام حسین (ع) اپنے وصیت نامہ میں مدینہ سے اپنے خروج کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
میں اپنے جد (محمد (ص)) کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں، امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد رسولخدا (ص) اور باپ علی مرتضی (ع) کی سیرت اور سنت پر چلتا ہوں۔ جو شخص خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دے، نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں وہ خدا و رسول سے جدا نہیں ہوتا ...