تحریک کربلا انسانیت کے لئے لازوال نمونہ

تحریک کربلا انسانیت کے لئے لازوال نمونہ

تحریک کربلا انسانیت کے لئے لازوال نمونہ

تحریک کربلا انسانیت کے لئے لازوال نمونہ

واقعہ کربلا اگرچہ سن ۶۱ ہجری میں رونما ہوا اور طلوع آفتاب سے لیکر عصر عاشور کا سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے سب کچھ ختم ہو گیا لیکن عاشور کا یہ ایک دن دنیا زمانے پر محیط ہو گیا اور ایک مشعل فروزاں کی صورت تاریخ میں درخشاں و تابندہ ہے اور کوئے حق و حقیقت کو تلاش کرنے والوں کے لئے نور افشانی کر رہا ہے۔ سید الشہداء علیہ السلام نے حق پرستوں کے باطل پرست طاقتوں سے تقابل کی ایسی حکمت عملی اپنے خون شہادت سے حیات انسانی کے لوح زریں پر رقم کر دی کہ رہتی دنیا تک حق پرستوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی اکثریت کو خون کی دھار سے مات کر دینے  کا عزم سکھاتی رہے گی، شک نہیں کہ شہہید قلب تاریخ ہے اور تاریخ کے دل ہونے کا مطلب ہے اس کے بغیر تاریخ مردہ ہے۔ اس کے بغیر تاریکی ہی تاریکی ہے شہید وہ نور ہے جو ظلمت میں چمکتا ہے تو ظلمت کدے ویران ہو جاتے ہیں وہ فریاد ہے جو سکون و جمود میں بلند ہوتی ہے تو تہجر و جمود کے پہاڑ پانی پانی ہو جاتے ہیں اور ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوتی ہے۔

کربلا کی یہ آفاقیت ہے کہ ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ اسکا رنگ پھیکا نہیں پڑتا بلکہ ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اور نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے اور ہر آنے والا موسم عزاء پچھلے سال سے بارونق و باعظمت ہوتا ہے اس لئے کہ ہر آنے والا عزاء کا موسم  اپنے ساتھ زندہ قدروں کو لیکر آتا ہے جس میں کربلا سے جڑے واقعات ہمیں عالی ترین انسانی قدروں کے تحفظ کا درس دیتے ہیں۔ حق و باطل کے مقابلہ میں مکتب شہادت کی جاودانگی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دنیا کے تمام مکاتب فکر کے درمیان اپنے اس لازوال مکتب سے تعلق خاطر پر فخر کریں اور کوشش کریں کہ اس کی تعلیمات کو عام کیا جا سکے۔

تاریخ انسانیت میں جتنی بھی الٰہی تحریکیں رونما ہوئی ہیں جنکے اندر ایک پاکیزگی و تقدس کا عنصر شامل رہا ہے اور انہوں نے انسانیت کے لئے کچھ کیا ہے، چاہے وہ تحریک ابراہیمی ہو یا فرعون وقت کے مقابل جناب موسی کا انقلابی آہنگ ان ابتداء آدم سے آج تک رونما ہونے والی ہر تحریک  کا اگر کہیں نچوڑ نظر آتا ہے تو وہ کربلا ہے، اور اسکی دلیل کربلا کی یہ چار بنیادیں ہیں۔

بصیرت و گہرائی کربلا کی وہ بنیاد ہے جو اس تحریک کو ہر دیگر واقعہ و تحریک سے ممتاز بناتی ہے اس لئے کہ جس عمق و بصیرت کا مظاہرہ کربلا والوں نے کیا اس کی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی، یہ وہ بصیرت  ہے کہ جسے کہیں قرآن نے جناب ابراہیم کے لئے رشد کی حیثیت سے بیان کیا ہے تو کہیں سورہ کھف میں و زدناھم ھدی کے ذریعہ اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی بنیاد پر یہ واقعہ گزر زمان کے ساتھ پرانا نہیں ہوتا بلکہ ہر نیا طلوع ہونے والا سورج اس کی تازگی و طراوت کا سبب بنتا ہے۔ کربلا  کی ایسی بنیادیں ہیں جن کی بنا پر آج ہر عدل و انصاف پر مبتنی دنیا میں اٹھنے والی ہر تحریک اپنے اندر وہ جوالا مکھی لیکر آتی ہے کہ قصر ستم و جور پر لرزا طاری ہو جاتا ہے۔ ہمارے لئے کربلا کا وجود ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو حقیقی تصور حیات سے آشنا کر کے ہمیں کیڑے مکوڑوں کی زندگی سے علیحدہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس جگہ کھڑے نظر آتے ہیں جہاں کسی پر ظلم ہو رہا ہو کوئی ہو یا نہ ہو  کربلائی تعلیمات ہم سے یہ کہتی ہیں کہ وہاں تم سب سے پہلے پہنچو جہاں انسانیت کو تمہاری ضرورت ہو اور رخسار ستم پر پڑنے والا سب سے پہلا طمانچہ بھی تمہارا ہی ہونا چاہیئے۔ کربلا سے باطل پرست طاقتیں اس لئے ڈرتی اور گھبراتی ہیں کہ کربلا ان کے چہرے کی نقاب الٹ کر انکی حقیقت کو ظاہر کرنے والی تحریک کا نام ہے۔ کل بھی دشمنوں نے کربلا کی آواز کو دبانےکی کوشش کی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

 

ای میل کریں