جمہوری اسلامی ایران کی جنتری کے مطابق 19/ شہریور سن 58 ش کو آیت اللہ طالقانی کی وفات ہوئی۔ آپ کا پورا نام سید محمد علائی طالقانی معروف بہ آیت اللہ طالقانی ایک ایرانی نو اندیش اور شیعہ عالم دین تھے۔ آپ سیاسی اور سماجی مسائل میں سرگرم اور دوسری قومی محاذ کے رکن اور ایران کی تحریک آزادی کے ایک موسس تھے۔ آپ ایرانی مہینہ 13/ اسفند سن 1289 ش کو ایران کے البرز صوبہ کے طالقان میں پیدا ہوئے اور سن 58 ش کو 18/ سال کی عمر میں شہید کردیئے گئے۔
محمود طالقانی کو سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلوی حکومت نے متعدد بار جیل بھیجا اور ایک بار جلاوطن ہوئے۔ یہ ایک مجاہد، باوفا، حق پرست اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے مجاہدین خلق کے بانی بالخصوص محمد حنیف نژاد کے بہت قریبی افراد میں تھے۔ پھر آپ شہید مرتضی مطہری کے مڈر کے بعد شورای انقلاب کے رئیس ہوگئے اور آپ عمر کے آخری ایام میں امام خمینی (رح) کی طرف سے تہران کے امام جمعہ ہوئے۔ اس کے بعد مجلس خبرگان کے قانون اساسی کے رکن ہوگئے اور اس کے ایک ماہ بعد مشکوک صورت میں شہید کردیئے گئے۔
یہ انقلاب کے اوائل ان معدود چند لوگوں میں سے تھے جو محمد مصدق اور علی شریعتی کا دفاع کررہے تھے۔ اسی طرح یہ تمام پارٹیوں، گروہوں اور احزاب کے محبوب اور پسندیدہ فرد تھے۔ یہاں تک ایران کا مجاہدین خلق ادارہ انھیں پدر طالقانی خطاب کرتا تھا، ان کے انتقال کے بعد ، امام خمینی (رح) نے انہیں "ابوذر زمانہ" کہا۔
ان کےمشہور ہونے کی ایک دوسری دلیل آپ کی تالیف "پرتویی از قرآن" کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے اپنے آثار بالخصوص اس مجموعہ میں جدید نظریہ کے ساتھ مذہب پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا میدان امین السلطان میں واقع مدرسہ محمد رضا سے آغاز کیا اور صرف و نحو اور علوم دینی اپنے والد ماجد سے حاصل کئے۔ آپ کے والد کا نام سید ابوالحسن طالقانی تھا اور یہ محمد طالقانی کے استاد بھی تھے۔
پھر انہوں نے قم کے مدرسہ رضویہ اور فیضیہ میں در جہ اجتہاد یعنی 1317ش تک اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور مرعشی نجفی، محمد تقی اشراقی اور میرزا خلیل کمرہ ای جیسے حوزہ قم کے مایہ ناز اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پوشیدہ طور پر نجف اشرف گئے اور وہاں جا کر سید ابوالحسن اصفہانی، محمد حسین غروی اصفہانی(کمپانی) اور آیت اللہ اصفہانی سے اجازہ اجتہاد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور سید شمس الدین محمود مرعشی اور سید حسین طباطبائی قم سے نقل حدیث کا اجازہ لیا اور 1318ش مدرسہ سپہ سالار تہران میں تدریس کرنے کے لئے چلے گئے۔
طالقانی رضا شاہ کے دور سے کشف حجاب کے مسئلہ میں سیاست کے میدان میں آئے اور تقریبا 40/ سال تک مختلف سیاسی سطحوں پر سرگرمی دکھائی۔ طالقانی پہلوی حکومت کے ایک سرگرم مخالف تھے اور آپ کو جب بھی موقع ملتا تھا خاندان پهلوی کی حکومت کو نشانہ بناتے اور اس سلسلہ میں گرفتار ہوکر جیل گئے ہیں۔ خلاصہ ایک مجاہد، متقی و پرہیزگار عالم دین اور سیاست پر اچھھی نظر رکھنے والے انسان تھے۔
امام خمینی (رح) ان کے انتقال پر فرماتے ہیں:
طویل عمر ہونے کا ایک نقصان یہ ہے کہ ہر دن کسی نہ کسی عزیز کے جانکاہ غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجاہد عظیم الشان بہت ہی عزیز بھائی حضرت حجت الاسلام و المسلمین آقا طالقانی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ملکوت اعلی سے جاملے اور اپنے اجداد گرامی کے ساتھ محشور ہوگئے۔ ان کے لئے سعدت اور سکون اور ہمارے اور ہماری امت کے لئے غم و اندون اور رنج و ملال رہ گیا ہے۔
آقا طالقانی نے ایک عمر جہاد، روشنی بخشے اور ارشاد و ہدایت میں گذاری ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہے کہ مسلسل زندان اور قید خانہ میں گذارتے رہے اور غم پر غم برداشت کرتے رہے اور کبھی اپنے عظیم جہاد اور باطل سے مقابلہ آرائی میں سست اور سرد نہیں پڑے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ میں زندہ رہوں گا اور اپنے عزیز اور گرامی بھائیوں کا یکے بعد دیگرے غم مناؤں گا۔ وہ اسلام کے لئے ابوذر کی طرح تھے۔ ان کی بولتی زبان مالک اشتر کی شمشیر کی طرح تھی۔ ان کی جلدی موت ہوگئی ہے لیکن ان کی عمر کا ہر لمحہ بابرکت تھا۔