نفاق اور منافقین کو پہچاننے کا آسان طریقہ
منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید کر رہا ہے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار علی الاعلان، مومنین کے مد مقابل ہیں، اور اپنی عداوت خصوصیت کا اعلانیہ اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن منافقین وہ دشمن ہیں جو دوستی کا لباس پہن کر اپنی ہی صف میں مستقر ہوتے ہیں، اور اس طریقہ سے وہ شدید ترین نقصان اسلام اور مسلمین پر وارد کرتے ہیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظواہر کی آراستگی دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ہے کہ سب سے پہلے ان کی شناخت کے لئے خاص بینایی و بصیرت چاہئے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز
آشکار و ظاہر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بہت زیادہ ڈرو۔
آیت اللہ شہید مطہری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اہمیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
میں نہیں سمجہتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر سے کہیں زیادہ شدید تر ہے، تردید کا شکار ہو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ہی ہے، جو حجاب کے اندر ہے جب تک حجاب کی چلمن اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چھرہ عیاں ہو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دھوکے و فریب کے شکار اور گمراہ ہوچکے ہوں گے
مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، اسلامی معاشرہ میں نفاق کے آفات و خطرات کا اظہار کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
(ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون)
رسول اکرم حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے: میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ہوں اور نہ مشرک سے، مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم اور دل کے منافق ہیں کہتے وہی ہیں، جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔
اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کی زمام داری کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات کہیں زیادہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے تھیں۔
پیامبر عظیم الشان ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ہوئے تہے۔
حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال کر رہے تہے جن کی رات گئے تلاوت قرآن کی صداء دلسوز حضرت کمیل جیسی فرد پر بہی اثر انداز ہوگئی تھی
آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتہاد سے تہا جو قرآن سے استنباط کرتے ہوئے آپ سے لڑ رہے تہے
منافقین ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر تعرض و تجاوز کا خیال رکتے ہیں لہذا نظامی و انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصارت و دانائی ہونا سبب ہوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رہیں، اس نکتہ کا بیان بہی ضروری ہے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر منحصر نہ ہو اگر چہ جنگ ورزم میں مستعد ہونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق میں سے ہے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پہچان کے لئے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ہے۔
جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں مں ہوتا ہے لہذا، نفاق اور اس کی خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ہے جسے عالم اسلام ہمیشہ قابل توجہ قرار دے۔
اس لئے کہ ممکن ہے ہزار چہرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزی، شاید اسلامی نظام و مسلمانوں کے لئے ایسی کاری ضرب ثابت ہو جو التیام و بہبود کے قابل ہی نہ ہو۔