امید انسان کو دیگر موجودات سے جدا کرنے والی صفت ہے اور معاشرہ کی ترقی اور پیش رفت میں بہت اہمیت رکھتی ہے اور بڑا کردار رکھتی ہے۔ آئندہ کے بارے میں خوش فہمی اور اس سے خود کو مشغول رکھنا معاشرہ کو مایوسی، افسردگی اور مردہ دلی میں مبتلا کرتی ہے۔
دل سردی اور مغزماری بھی بحران کے قریب چیز ہے کہ اگر درمیان میں نہ ہو تو ناکامی اور زوال سے دوچار ہوگا۔ بنابر یں ترقی یافتہ یا ترقی کی راہ گامزن معاشرے میں اس مسئلہ کی جانب توجہ ہر حکومت کی ترجیح ہے تا کہ بحرانی حالات کے آغاز اور اس کے پیدا ہونے سے روکا جاسکے۔
امام خمینی (رح) انقلاب کے رہبر عظیم اور نظام جمہوری اسلامی ایران کے بانی بھی امید اور معاشرہ میں امید آفرینی سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ اس طرح سے کہ آپ کی نظری اور عملی سیرت آئندہ اور آئندہ والوں کے امید اور امید آفرینی تھی۔ امام (رح) ہمیشہ لوگوں اور حکومتی ذمہ داروں کو امید دی اور مایوسی اور نا امیدی سے دور رکھا اور ہوشیار کرتے رہے۔ امام خمینی (رح) کے پیغامات اور بیانات حسن ظن، امید اور امید آفرینی سے لبریز ہیں۔ یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ امام خمینی (رح) کی نظر میں امیدوار ہونا، امید رکھنا، معاشرہ میں اور معاشرہ کی ہر فرد کے درمیان نشاط و شادی پیدا کرتی ہے اور امید جگاتی ہے۔ اور یہ ایک بنیادی اور جوہری کام شمار ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی اہمیت میں یہی کافی ہے کہ امام خمینی (رح) اپنی وسیع نظری کے باوجود جس طرح مایوسی اور ناامیدی کو جہالت اور شیطان کا لشکر شمار کرتے ہیں اسی طرح امید اور امیدواری کو عقل کا لشکر شمار کرتے ہیں۔
کہاجاسکتا ہے که ان کی نظر میں لوگوں کو دلسرد کرنا ایک قسم کا شیطانی لشکروں اور انسانی دشمنوں کا حملہ ہے۔ امام خمینی (رح) انسانوں کے اندر امید جگاتے تھے۔ لوگوں کو انسانیت کے تقاضوں سے باخبر کرتے رہے۔ لوگوں کو اسلام دشمن عناصر کے شر سے محفوظ رہنے کے طریقوں سے آشنا کراتے رہے، دشمن کی حقیقت بتاتے رہے۔ اسلام کے دشمنوں کو انسانوں کا دشمن جانتے تھے۔ اسلام انسانیت کا نام ہے، اسلام لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، حسن سلوک اور اچھی رفتار رکھنے کا نام ہے۔
آپ کی نظر میں انسان کی روحی بنیاد امید اور سرور و شادمانی پر رکھی گئی ہے اور ناامیدی، غم و اندوه، مایوسی اور سستی اعتباری، عارضی اور گذرجانے والی چیز ہے۔
اسی طرح آپ کو ظلم و جور کے انکار کی امید و امیدواری اور اسلام و مستضعفین کی حاکمیت کا احساس کہ آپ نے اسے اپنی نوجوانی سے سیاست کے میدان میں داخل کردیا، اس کے لئے جیل گئے، قید ہوئے اور جلاوطن ہوئے لیکن ناامید اور مایوس نہ ہوئے۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
میرے والد ما جد فرماتے تھے: کمومن کے دل میں دو نور ہے ایک خوف کا نور ہے اور ایک امید کا نور ہے۔
اس حدیث میں امید اور امیدواری کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ نور جو انسان کو گمراہی اور تاریکی سے نجات دیتا ہے۔ ظلمانی حجابوں اور سیاہی کو ہٹاتا ہے اور منزل مقصود تک پہونچاتا ہے۔ ہم جس طرح امام خمینی (رح) کی نظری اور عملی سیرت میں نور ملاحظہ کرتے ہیں اسی طرح دوسروں کو امیدوار بناتے اور حُسن ظن عطا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رح) کے دل میں یہی نور امید تھا جس نے 12/ بہمن سن 1357 ھ ش کو فرانس سے ایران پرواز انقلاب کے موقع پر امام خمینی (رح) پورے اطمینان اور آسودگی کے ساتھ ہوائی جہاز پر سوار ہوئے جبکہ سارے چاہنے والے مضطرب اور گھبرائے ہوئے کہ کسی وقت کوئی حادثہ ہوسکتا ہے، لیکن آپ جہاز میں جاکر آرام سے بیٹھ گئے۔
امید یعنی ہم ہر صورت اپنے مقصد کو پاسکتے ہیں۔ ایک امیدوار شخص تمام مشکلات کے باوجود اپنے مقصد تک پہونچنے کی راہ تلاش کرلیتا ہے وہ اپنے مقصد کی راہ میں اپنے مقصد تک پہونچنے کے لئے کافی ارادہ رکھتا ہے۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں کبھی مایوس نہ ہونا چاہیئے کیونکہ امید رکھنے والا کامیاب ہے۔