امام خمینی(رح) علوم کو عملی اور وجودی اعتبار سے دیکھتے ہیں تا کہ علوم کی کارکردگی کی روشنی میں ان کی قدر و قیمت کا تعین ہو اور ان کی تقسیم بندی کی جاسکے۔ آپ کی نظر میں علم کی عملی کارکردگی ہی صاحبان علم کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتی ہے۔ امام خمینی (رح) اسی معیار کی بنیاد پر علوم کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے انھیں مختلف علوم میں تقسیم کرتے اور اسی کی روشنی میں اس حدیث کی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں علوم کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں رسولخدا (ص) نے ایک دن مسجد میں کچھ لوگوں کو ایک شخص کے ارد گرد بیٹھے ہوئے دیکھا تو آپ نے یہ پوچھنے کے بجائے کہ یہ کون ہے آپ (ص) نے پوچھا " یہ کیا ہے؟" یہ خد اس شخص اور اس کے کام کی طرف ایک کنایہ تھا۔ لوگوں نے کہا: یہ علامہ ہے اور یہ لوگوں کے سلسلہ نسب نیز جاہلیت کے حوادث اور واقعات سے واقف ہے۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: "یہ ایک ایسا علم ہے جس کے نہ جاننے سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی کوئی ضرر اور نقصان" اس کے بعد آپ (ص) نے فرمایا: "علم تین چیزوں میں منحصر ہے: آیہ محکمہ، فریضہ عادلہ یا سنت قائمہ"
امام خمینی (رح) اسی حدیث کو اپنے علوم کی تقسیم بندی کا معیار قرار دیتے ہیں اور پہلے مرحلہ میں تمام علوم کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک وہ علم جو مفید اور سودمند ہے۔ دوسرا وہ علم جو نقصان دہ اور مہلک ہے۔ تیسرا وہ علم جو بے خاصیت اور بے سود ہے۔ خلاصہ علوم کی تین قسمیں ہوئیں۔ ایک علم وہ ہے جن تک اخروی عوالم کے لحاظ سے پہونچا ہماری غرض خلق ہے وہ انسان کے لئے مفید ہے۔ دوسرا جو انسانی حالات کے لئے مضر اور نقصاد دہ ہے اور اسے اس کے ضروری فرائض سے دور کرتا ہے اور علم کی یہ قسم مذموم اور ناپسندیدہ علوم میں سے ہے اور اس کی طرف انسان کو توجہ نہیں کرنی چاہیئے۔ تیسرا وہ جس کا نہ کوئی نفع اور نہ نقصان ہے۔
اس کے بعد امام خمینی (رح) اس مفید علم کی بھی تین قسمیں کرتی ہیں: 1۔ عقلی اور اعتقادی علوم۔ 2۔ علم اخلاق ۔ 3۔ شرعی علم۔
آیہ محکمہ عقلی علوم، عقائد اور معارف الہیہ کو کہتے ہیں۔ اور علم اخلاق اور تزکیہ باطن کو "فریضہ عادله" اور علم ظاہر اور قالبیہ آداب کو "سنت قائمہ " کہا جاتا ہے۔
آیت محکمہ سے مراد برہانی اور استدلالی علوم اور الہی معارف ہیں جن کے ذریعہ مبدا اور معاد (خدا اور قیامت) اور نبوت کے مسائل واضح ہوتے ہیں اور فریضہ عادلہ سے مراد وہ علم ہے جو انسان کے خلق و خو اور اخلاق کو معتدل رکھتا ہے۔ اسی طرح سنت قائمہ ایسے مجموعہ کا نام ہے جن کے ذریعہ انسان کے فردی اور اجتماعی روابط بحال ہوتے ہیں اور اس کا جلوہ اور نظارہ عبادی احکام میں دکھائی دیتا ہے۔
اس تفسیر اور تطبیق کی وضاحت کے لئے امام خمینی (رح) انسان کی وجودی وسعتوں کی طرف ایک اشارہ کرتے ہیں۔ آپ کی نظر میں انسان کی تین وجودی وسعتیں ہیں۔ ایک یہی ظاہری اور حسی عالم ہے جسے عرفانی اصطلاح میں "مقام ملک و حضور" کہا جاتا ہے۔ دوسرا برزخی اور درمیانی عالم ہے جو " مقام خیال اور مقام" کے نام سے مشہور ہے اور تیرا عالم" عالم عقل، مقام روحانیت، عالم ملکوت، اور عالم غیب" کہلاتا ہے۔ انسان کی ان تمام وجودی وسعتوں کی تربیت اور پرورش کی ضرورت ہے۔
رسولخذا (ص) غیر مفید علم سے خدا کی پناہ مانگتے تھے اور امیر المومنین (ع) نے پرہیزگاروں کے صفات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: "وہ لوگ صرفاور صرف مفید علوم کو حاصل کرتے ہیں۔"
ان سب باتوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ علم و دانش کو انسان کے لئے مشعل راہ اور چراغ ہدایت ہونا چاہیئے نہ ضلالت اور گمراہی کا سبب۔