ماہ محرم سن 42 ش کو لوگوں کا اعتراض اور احتجاج شدید تھا لیکن امام خمینی (رح) کی گرفتاری سے اس میں مزید رونق آگئی اور شدید ہوگیا۔ لوگوں نے 15/ خرداد کے دو دن قبل عاشور کے دن سڑکوں پر جلوس نکال کر اور عزاداری بپا کرکے اس احتجاج اور اعتراض کو پہلوی حکومت کے خلاف اعتراض اور احتجاج میں بدل ڈالا۔ حکومت نے اس مراسم اور پروگراموں کو ناکام بنانے کے لئے خالی مغر اور بے فکر شعبانی گروہ کو ان سے مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا لیکن مرحوم طیب رائی کی بہت ہی قوی حسینی کمیٹی کی حمایت اور لوگوں کے مقابلہ سے شعبانی گروہ نے دم توڑ دیا اور فرار کرگیا۔ اور عزاداروں کا مارچ کرتا ہوا دستہ عاشور کے دن مرکز شہر کی سڑکوں سے ہوتا ہوا ناصر خسرو اور محل مرمر کے سامنے سے مرگ بر ڈیکٹیٹر کہتا ہوا بازار واپس آگیا اور پروگرام کے آخر میں تحریک کی کامیابی تک جاری رکھنے اور مراجع کے اپنے مقصد تک پہونچنے کا قطعنامہ شائع کیا۔ اس دن بیوقوف شعبانی گروہ کی ناکام تحریک اور مزاحمت کے سوا حکومت کی جانب سے کوئی اور رد عمل سامنے نہ آیا۔
اسی طرح امام (رح) کی گرفتاری کو لیکر پورے ملک میں جگہ جگہ پر حکومت کے خلاف آوازیں اٹھیں، لوگ سڑکوں پر آئے اور حکومت کے خلاف اعتراض کیا اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لئے جلوس ہائے عزا نکالے اور شاہ اور پہلوی حکومت کو وحشت زدہ بنادیا۔ "عَلَم" صدر جمہوریہ اپنی سرگذشت میں لکھتا ہے کہ شاہ اس درجہ ڈرا ہوا تھا کہ اس نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے فوج کا سہارا لیا اور لوگوں پر گولیاں برسادیں۔