عراق کی غیر مستقل اور استعمار کے اشاروں پر چلنے والی حکومت نے اس قدر ہم پر مظالم ڈھائے اور ہمارے ملک و ملکت کی تباہی کی کہ دنیا کی کسی حکومت نے آج تک اپنے دشمن کے ساتھ اس طرح نہیں کیا ہوگا۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے بھی اس قدر قساوت کا مظاہرہ نہیں کیا ہوگا۔
جب پہلی مرتبہ حکومت عراق نے ایرانیوں کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے فورا بعد ہر روز ہمارے ہموطن بہن بھائیوں کو گرفتار کرکے جیل میں بند کرنے لگے اور نہ فقط اس پر اکتفا کیا بلکہ ان کو قیدی بنا کر اس قدر ستایا گیا اور سزائیں دی گڈیں کہ ناقابل بیان ہیں۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ان کے مال و منال لوٹ کر انہیں گھروں سے نکال دیا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس غلام حکومت نے اعلان کیا کہ تمام ایرانی صرف چھ دنوں میں عراق سے باہر نکل جائیں۔ سردیوں کا موسم تھا اور سخت سردی پڑ رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے ہم وطنوں نے عراق چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور ایران جانے کو آمادہ ہوگئے۔ لیکن اس کے برخلاف حکومت عراق نے اپنے کچھ سیاسی مفاد کے پیش نظر امام خمینی (رح) کو عراق میں مزید روکنے کا منصوبہ بنایا لہذا انہوں نے امام (رح) کو پیغام بھیجا کہ بغداد کی سیاسی شخصیات پر مشتمل حکومتی افراد کا ایک وفد، آپ سے ملاقات کرنے آرہا ہے تا کہ آپ کے ساتھ حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرے۔ ان ملاقاتیوں میں علی رضا نامی شخص بھی موجود تھا کہ جو صدام کا مشاور اور معاون اور ایرانیوں پر ظلم و ستم کرنے اور ان کی توہین کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ جب صدام کا بھیجا ہوا یہ وفد نجف پہنچا تو امام (رح) نے اعلان کردیا:
"میں ان سے ملاقات نہیں کروں گا اور کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ میری اجازت کے بغیر مجھ سے ملاقات کے لئے میرے پاس آئے۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہ دیا کہ میں نے بھی اپنا پاسپورٹ بھیج دیا ہے لہذا گورنمنٹ جلد از جلد اس پر خروج (ایگزیٹ) کی مہر لگا کر مجھے بھجوائے تا کہ میں بھی اپنے ہموطن ایرانیوں کے ساتھ عراق چھوڑدوں۔"
اس واقعہ کے بعد امام کے دوست اور تمام خیر خواہ ڈرگئے کیونکہ علی رضا ایک خطر ناک اور وحشی مزاج صاحب اختیار آدمی تھا اور امام (رح) نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا تھا اس پر تمام علماء نے آپ سے گزارش کی اور بہت زیادہ اصرار کیا کہ آغا! آپ ان کی بات مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کی بات سن تو لیں! اس پر امام (رح) نے فرمایا:
"ٹھیک ہے میں ان سے ملاقات کروں گا لیکن ابھی تھوڑا ٹھہر جائیں تا کہ اس کا اور بھی غرور خاک میں مل جائے اور وہ یہ نہ سوچے کہ میں بغداد سے ایا ہوں اور اس قدر صاحب قدرت ہوں کم از کم اسے اتنا سبق تو سیکھانے دیں کہ اسے یہ احساس ہوجائے کہ ایک عالم دین نے اسے جاتے ہی ملاقات کا وقت نہیں دیا۔"
بہر حال جب یہ وفد، امام خمینی (رح) کے محضر میں حاضر ہوا تو امام (رح) نے بالکل صاف لفظوں میں علی رضا سے فرمایا: تم ظلم کرنے میں یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے ہو جیسا سلوک تم نے ایرانیوں کے ساتھ کیا ہے ایسا سلوک تو اسرائیلی یہودیوں نے بھی آج تک نہیں کیا اور مجھے یاد ہے کہ جب اسی عراق سے یہودیوں کو نکالا جارہا تھا تو انہیں بھی عراقی حکومت نے کم از کم چھ ماہ کی مہلت دی تھی تا کہ وہ اس مدت میں اپنے تمام کام نمٹا سکیں اور اپنے سارے معاملات طے کرسکیں۔ اور جب یہ مہلت ختم ہوئی تو ان کے لئے چھ ماہ اور بھی بڑھائے گئے۔ لیکن ایرانیوں کو تم نے صرف چھ دنوں کی مہلت دی! اس کے بعد فرمایا:
"حقیقت یہ ہے کہ تمہیں دین کے طلاب سے کیا سروکار؟"