آغا حکیم کی رحلت کے بعد، عراقی گورنمنٹ کی طرف سے کچھ افراد، اس وقت کے مراجع عظام؛ آغا شاہرودی خوئی اور حضرت امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس ملاقات سے ان کا ہدف یہ تھا کہ حضرت امام (رح) کیونکہ شاہ ایران کے دشمن ہیں اور عراقی حکومت بھی اس کی دشمن ہے لہذا امام (رح) اپنے دشمن کے خلاف عراقی حکومت کی تائید کریں گے اور اس حکومت کو ایک مشروع اور جائز حکومت کے طور پر پہچانیں گے۔ لہذا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ امام (رح) کا طرز انتقام اور دشمن کو زیر کرنے کا طریقہ بھی دوسرے سیاستدانوں ہی کی طرح ہوگا۔ لہذا اس طرح تھوڑی سی کوشش سے امام (رح) عراقی حکومت کی تائید کردیں گے اور پھر انہیں شاہ ایران کو زیر کرنے کے لئے ایک بہت بڑی عوامی طاقت مل جائے گی اور اس طرح وہ آسانی کے ساتھ اپنے ناجائز مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن ان کی امیدوں کے برعکس امام (رح) نے نہ تو ان کی بات کی تائید کی اور یہاں تک کہ انہیں زیادہ ٹائم بھی نہ دیا کہ وہ مزید اس موضوع پر کچھ بات چیت کرسکیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس مختصر سی ملاقات کے بعد انہوں نے اخباروں میں یہ جھوٹی خبر شائع کر وادی کہ: ہم مراجع عظام کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور انہوں نے عراقی صدر "احمد حسن الکبر" کو دعا کی ہے۔
امام خمینی (رح) اس خبر کو سن کر ناراحت ہوئے اور اپنے ایک ساتھی سے فرمایا کہ وہ نجف کے ڈپٹی گورنر کو امام (رح) کی طرف سے فون کرے اور اسے کہے کہ وہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا اسی طرح اعلان کروائے کہ جس طرح پہلے وہ اسے شائع کرواچکے ہیں۔ امام (رح) نے فرمایا: اسے فون کرکے کہیں کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر اس خبر کے جھوٹے ہونے کا اعلان نہیں کریں گے تو پھر میں خود پوری دنیا میں اس بات کا اعلان کردوں گا کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ لہذا امام (رح) نے اس طرح ثابت قدمی کے ساتھ اس بات کا دفاع کیا کہ جو لوگ کسی چیز کی اور کسی بات کی پروا نہیں کیا کرتے تھے وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اس خبر کے جھوٹا ہونے کا اعلان کریں۔
پا بہ پای آفتاب، ج 4، ص 44