آپ کا نام نامی موسی بن جعفر اور کنیت ابوابراہیم، ابوالحسن، ابوالحسن ماضی، ابو علی اور ابو اسماعیل ہے۔ اور آپ کے القاب کاظم، صابر، صالح، امین اور عبد الصالح ہے۔ امام موسی کاظم (ع) شیعوں کے درمیان "باب الحوائج" سے مشہور ہیں۔ آپ کا منصب، آپ شیعوں ساتویں امام اور نویں معصوم ہیں۔
آپ (ع) 7/ صفر 128/ ھج ق کو پیدا ہوئے، لیکن بعض نے سن 129 ھج ق بھی ذکر گیاہے۔ اور ابواء نامی مقام پر پیدا ہوئے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک علاقہ ہے (حجاز کی سرزمین یعنی موجودہ سعودی عرب)
آپ کی والدہ کا اسم گرامی حمیدہ ہے۔ یہ خاتون باعظمت اپنے زمانہ کی عظیم ترین خاتون تھیں اور آپ دینی احکام و مسائل کی عالمہ اور فقیہہ بھی ہیں کہ امام صادق (ع) عورتوں کو دینی مسائل اور احکام سیکھنے کے لئے ان کی طرف ارجاع دیتے تھےاور ان کے بارے میں فرمایا: حمیدہ ہر گندگی اور آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہیں۔ مسلسل فرشتے ان کی حفاظت کرتے رہے یہاں تک کہ میرے پاس آ پہونچی اس کرامت کی بنا پر جو خدا نے میرے اور میرے بعد حجت کے لئے رکھی ہے۔
امام موسی کاظم (ع) اپنے والد گرامی امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کے بعد 35/ سال تک امام رہے ۔ آپ (ع) 20/ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوگئے تھے۔ 25/ رجب سن 83/ ھج ق؛ 55/ سال کی عمر میں ہارون الرشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے قید خانہ میں زہر کے ذریعہ شہید ہوگئے۔ اور بغداد میں قریش کے مقبروں کے نام سے ایک مقام پر دفن ہیں جو اس وقت "کاظمین" کے نام سے معروف ہے۔
امام موسی کاظم کی اولاد کی تعداد کے بارے میں چند اقوال ہیں:
ایک قول کی بنیاد پر آپ کے 37/ اولاد تھیں کہ ان میں اسے 18 / لڑکے اور 19 / لڑکیاں تھیں۔ آپ (ع) کی اولاد ذکور میں سے ایک شیعوں کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا (ع) ہیں اور لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کانام فاطمہ ہے جو حضرت معصومہ علیہا السلام سے مشہور ہیں جن کا مزار مرکز علم و ادب کے نام سے معروف شہر قم میں ہے۔ جہاں دنیا کے گوشہ و کنارے سے چاہنے والوں کی آمد کا سلسلہ لگا دیتا ہے اور یہ جگہ شیعہ دانشوروں اور مجتہدوں کی یونیورسٹی ہے۔
سماجی اور ثقافتی حالات
امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے نص صریح کی روشنی میں آپ کے فرزند امام موسی کاظم (ع)، 20/ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 35/ سال تک امت مسلمہ کی رہبری کرتے رہے۔ چھٹے امام کی شہادت کے درمیان آپ کی جانشینی کے بارے میں شیعوں کے درمیان حیرانی اور سرگردانی کا عجیب ماحول تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے فرزند اسماعیل کی جانشینی کا شبہہ آپ کی حیات میں پایا جارہا تھا۔ اسی وجہ سے امام صادق (ع) نے اسماعیل کی جانشینی کی مختلف مناسبتوں سے نفی کی اور جب امام کی زندگی ہی میں اسماعیل کا انتقال ہوگیا تو آپ ان کے مرنے سے کافی غمزدہ اور محزون تھے۔ اس کے باوجود آپ کے اسماعیل کے جنازہ سے چادر ہٹانے کا حکم دیا تا کہ لوگ ان کے مرنے کے چشم دید گواہ ہوں اور یقیں کرلیں۔ شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جب آپ کی تشییع جنازہ ہوئی تو چند مقام پر تابوت کو زمین پر رکھنے کا حکم دیا اور ہر بار چہرہ کھلوا کر دیکھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی موت کی یقین کریں۔
حکومت کے تعاون سے مخالفت
امام موسی کاظم (ع) نے ظالم و جابر حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ اپنے موقف کا اعلان کیا۔ آپ نے ایک دن "صفوان" نامی شیعہ سے فرمایا: تمہارا سارا کام نیک اور اچھا ہے جز ایک کام کے۔ صفوان نے کہا: اے فرزند رسول خدا (ص)! وہ کیا ہے؟ امام نے فرمایا: یہی کہ تم اپنے اونٹوں کو ہاروں کو کرایہ پر دیتے ہو۔ صفوان کہا: میں نے انہیں عیش و عشرت اور تفریح کرنے کے لئے نہیں دیا ہے بلکہ خانہ خدا کی زیارت کرنے کے لئے دیا ہے اور ان کے ہمراہ میں خود نہیں گیا ہوں۔ امام نے فرمایا: جو یہ چاہتا ہو کہ ستمگر زندہ رہےوہ انہی کی صف میں ہے او جو ان کی صف میں ہے وہ جہنم میں جائے گا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کس کے ساتھ کررہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ هارے سارے اعمال بظاہر نیک ہوں لیکن کسی نہ کسی طرح ظالم و جابر اور انسانیت کے دشمن کی مدد ہورہی ہے اور اسلام کے اقدار کی بلندی کے بجائے اس کی سرنگونی کے اسباب خود ہمارے ہاتھوں ہورہے ہوں۔ خلاصہ اپنے موجود سے کسی کو سوء استفادہ کا موقع فراہم نہ کریں۔
امام کاظم (ع) سے منقول منتخب احادیث
1۔ طبرسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت موسی کاظم (ع) نے فرمایا: فی القرآن شفاء من کل داء؛ قرآن میں ہر مرض کی شفا موجود ہے۔
2۔ قرآن کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جو شخص قرآن کی صرف ایک آیت پر اکتفا کرے اور اسے اپنی حفاظت کے لئے کافی جانے تو مشرق سے مغرب تک اس کی (حفاظت) کے لئے وہی آیت کافی ہے اگر باایمان اور عقیدت مند ہو۔
3۔ امام موسی کاظم (ع) نے فرمایا:
میں نے لوگوں کے تمام علوم کو چار چیزوں میں پایا ہے: پہلی چیز یہ ہی کہ اپنے رب اور خالق کو پہچانو اور اس کے بارے میں شناخت حاصل کرو۔ دوسری یہ کہ تم جانو کہ تمہارے وجود اور بقائے حیات کے لئے کیا کیا کام اور کوششیں کی گئی ہیں۔ تیسری یہ کہ تم بھی جانو کہ تم کس لئی پیدا کئے گئے ہو اور اس کا مقصد کیا رہاہے۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ ان چیزوں کی معرفت حاصل کرو جس کی وجہ سے تم اپنے دین اور عقیدہ سے منحرف ہوسکتے ہو۔ (اپنی سعادت اور بدبختی کے راستوں کو جانو اور معاشرہ میں آنکھ اور کان بند کرکے نہ چلو)
4۔ اہل زمین رحمت (اور برکت) ہی کا مرکز ہیں جب تک کہ گناہ اور معصیت کا خوف رکھتے ہوں، امانت ادا کرتے اور حق کا ادراک کرکے اس پر عمل کرتے رہیں گے۔
5۔ خداوند عالم زیادہ سونے والے اور بیکار بندہ پر غضبناک ہوتا هے۔
6۔ امانت کی ادائیگی اور صدق بیانی رزق میں اضافہ کا سبب ہیں اور خیانت اور جھوٹ فقر اور نفاق کا باعث ہیں۔