جب امام خمینی (رح) کے پاس طلاب کی تعداد زیادہ ہوگئی تو ہم سب نے مل کر آپ سے درخواست کی کہ آپ منبر پر بیٹھ کر درس دیں تا کہ آپ کی آواز سب تک پہنچ سکے۔ امام اس دن منبر پر گئے اور منبر پر جانا اس بات کا بہانہ بن گیا کہ آپ طلاب کو وعظ و نصیحت کریں۔ لہذا یہ وعظ تمام طلاب پر بہت موثر ثابت ہوا کہ جس میں آپ نے فرمایا:
جب مرحوم شیخ الشریعہ اصفہانی کا انتقال ہوگیا تو مرجعیت مرحوم میرزا نائینی کو سونپی گئی، لہذا ان کے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اس پر میرزا نائینی سے درخواست کی گئی کہ وہ منبر پر تشریف لے جائیں جیسے ہی آپ منبر پر گئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جب رونے کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ کیسے دن آگئے ہیں کہ جن میں ہم جیسے بھی منبر تک پہنچ گئے، اس منبر تک کہ جس پر مشائخ بزرگ بیٹھا کرتے تھے۔ اگر کوئی شاگرد دیر سے کلاس میں آتا تھا تو آپ کو اس پر بہت افسوس ہوتا اور آپ ناراض ہوجاتے تھے۔ ایک دن آپ نے فرمایا: میں یہ نہیں کہتا کہ تم لوگ صرف میری ہی کلاس میں بر وقت آؤ بلکہ آپ جس کی بھی کلاس میں جائیں کوشش کریں کہ بر وقت یا تھوڑا وقت سے پہلے کلاس میں حاضر ہوں کیونکہ کلاس کسی ذاکر کی مجلس کی طرح نہیں ہے کہ تم جس وقت حتی مصائب کے دوران ہی پہنچ جاؤ، تمہیں ثواب مل جائے گا۔
پا بہ پای آفتاب، ج 4، ص 136