آزادی کے نعرے پر عورت کی غلامی

آزادی کے نعرے پر عورت کی غلامی

اسلام ناب محمدی (ص) کی نگاہ میں بیٹی کی فضیلت و اہمیت اور استعماری نگاہوں میں اشتہار بازی کا ذریعہ۔

اسلام ناب محمدی (ص) کی نگاہ میں بیٹی کی فضیلت و اہمیت اور استعماری نگاہوں میں اشتہار بازی کا ذریعہ۔

یورپ کے صنعتی انقلاب نے یورپ کی زندگی میں جہاں طبقاتی نظام کو جنم دیا، وہیں پر معاشرتی اور ثقافتی  اعتبار سے بھی یورپ کے اس وقت کے معاشرے کو تبدیل کردیا۔ اس انقلاب سے پہلے خواتین کا معاشرے میں کم و بیش وہی کردار تھا جو آج سے تیس چالیس سال پہلے کے پاکستانی معاشرے میں تھا۔ اس صنعتی انقلاب نے مزدوروں کی ڈیمانڈ کو بڑھا دیا۔

پہلے تو اسے زیادہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے معاشرے کے بیکار لوگوں کو کام میں لایا گیا۔ جب اس سے کام نہ چلا تو بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایسے خطوں سے لایا گیا جہاں استعماری قوتوں کا قبضہ تھا۔ افریقہ سے امریکہ منتقل ہونے والے غلاموں کی مظلومانہ داستانیں آج بھی امریکہ کے مختلف میوزیمز میں موجود ہیں، جو کام کرتے کرتے بے نام ہی دنیا سے گزر گئے۔

اس تمام کے باوجود یہ کمی پوری نہیں ہوئی تو ایک معاشرتی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا، وہ تھا عورت کو آزادی کے نام پر فیکٹروں، دفتروں اور سڑکوں پر لے آؤ۔ اس سے پہلے مذہب جو ایک بنیادی عنصر تھا، اس کو ریاستی معاملات سے نکال کر چرچ تک محدود کردیا۔

امام خمینیؒ نے فرمایا: "عورت کو اس کے مقام سے گرا کر اشتہار بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے"۔ آپ مغرب کو چھوڑ دیں، صرف پاکستان میں شام کو پانچ منٹس مختلف ٹی وی چینلز پر آنے والے اشتہارات کو دیکھ لیں، آپ کو پتہ چل جائےگا کہ امام خمینیؒ نے درست فرمایا تھا۔

آج مغربی میڈیا بالخصوص ان کی اردو سائٹس کا مشاہدہ کریں، ان پر غیر محسوس انداز میں ہماری روایات و اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے۔

اسلام نے جس خاندانی نظام کا تصور دیا ہے، اس میں عورت ایک انتہائی مہذب کردار کی حامل ہے۔ اس کی ذمہ داریاں بتا دی گئیں ہیں اور اس کے حقوق کو مکمل تحفظ دیا ہے۔ ہم جہاں ان اقدار کی مخالفت کرتے ہیں، جو ہماری روایات کے خلاف ہیں، اسی طرح ہم ہر اس روایت کے بھی خلاف ہیں، جس کی بنیاد پر کسی عورت کے ساتھ زیادتی کا تصور ابھر رہا ہو۔

اسلام عورت کو بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں دیکھتا ہے۔ ہر جگہ اسے عزت و شرف عطا کرتا ہے۔ بیٹی کی صورت میں ہو تو اسے والدین کےلئے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ آقائے نامدار ؐ کا فرمان ہے، جس کو اللہ نے دو بیٹیاں عطا کیں، اس نے ان کی اچھی پرورش کی اور ان کی شادی کر دی تو  وہ قیامت کے دن جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ میں نے بہت سے دوستوں سے پوچھا ہےکہ کیا ایسی کوئی روایت دوسرے مکاتب میں موجود ہیں؟!

جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی سیدہ فاطمہ (س)، آپ (ص) کے پاس آتی تو کھڑے ہو جاتے؛ عرب کے اس معاشرے میں جہاں بیٹی کو توہین کی علامت سمجھا جاتا تھا، آپؐ کا یہ طرز عمل انہیں اور آنے والے مسلمانوں کو بتا رہا ہےکہ بیٹی کی قدر کرو۔ بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کی قدر کریں؛ یہ بیٹی کی فضیلت و اہمیت ہے۔

اسلام، اعتدال کا نام ہے جس میں عورت کو با عزت مقام حاصل ہے اور ہم نے ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں عورت کو اس کا یہ مقام حاصل ہو۔

 

ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ کی تحریر سے تلخیص شدہ

ای میل کریں