میں کینسر کے مرض میں مبتلا تھا۔ جب میں نے یہ سنا کہ امام خمینی (رح) شہداء کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ: زبان اور قلم شہید کا نام بیان کرنے سے عاجز ہیں کیوں کہ شہید بسوئے خدا نگاہ کرتا هے۔ اے کاش ایسا ہوتا کہ میں کسی طرح خمینی کے پاس پہنچ جاتا۔ میرے لئے طبیعی موت کی فکر نہایت ناگوار اور دشوار تھی لیکن اب تو ڈاکٹروں نے مجھے جواب دے دیا ہے اور مجھے باہر جانے سے بھی روک دیا ہے۔ ان دنوں میں بہت بے قراری کے ساتھ موت کے وقت کا انتظار کررہا تھا۔ اسی ضعف اور ناتوانی میں ایک مرتبہ مجھے امام خمینی (رح) کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت میری آنکھیں ان کے نورانی چہرے پر پڑیں۔ آنسوؤں نے مہلت نہ دی لہذا میں نے امام (رح) کے ہاتھ کے چند مرتبہ بوسے لئے۔
اسی حالت میں، میں نے عرض کی: آقا اے کاش مجھے بھی شہادت کی سی سعادت نصیب ہوجاتی! اور اس کینسر کی مرض کے ساتھ نہ مرتا! آقا آپ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ یا مجھے شفا مل جائے یا شہادت۔ اس وقت امام (رح) نے اپنا ہاتھ اپنے عمامہ پر پھیرا اور چند جملے دعا پڑھے اور فرمایا:
پریشان نہ ہوں انشاء اللہ تعالی خدا آپ کو شفا عطا فرمائے گا!
اس کے بعد میں نے گزارش کی کہ آقا آپ اپنا دست شفقت میرے سر پر بھی پھیردیں اس لئے میں نے اپنا عمامہ اتارا اس وقت امام نے اپنا ہاتھ میرے سر پر پھیرا اور میں گھر واپس آگیا بلافاصلہ مجھے میرے گھر والے جرمنی لے کر چلےگئے۔ جب ہم ہسپتال میں پہنچے تو اس وقت ایک کاغذ میرے سامنے انہوں نے پیش کیا اور کہا کہ یہاں پر دستخط کرو۔ کیونکہ تمارا بچ جانا پچاس فیصد ہے اور اگر بچ بھی گئے تو پھر تمہاری یادداشت تمارے ہاتھوں جاتی رہے گی۔
یہ بات سن کر میرا جسم کانپ رہا تھا، لہذا میں کوئی بات بھی نہ کر سکا اور کاغذ پر دستخط بھی نہ کئے۔ ایسے میں میری ماں نے مجھے فون کیا، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا امی جان! اب تو میری تمام امیدیں منقطع ہوچکی ہیں۔ ماں نے کہا آپ پریشان نہ ہوں سب پتہ چل جائے گا آپ تو ہمت ہار گئے ہیں۔ میں چاہ رہا تھا که ناراضگی کے عالم میں ان کی بات کاٹ دوں لیکن انہوں نے کہا:
آپ میری بات پر توجہ کیوں نہیں کر رہے، تقی؛ تم امام خمینی (رح) کی دعا کو بھول گئے ہو؟ کیا اسے واقعا ہی بھول گئے ہو؟ کیا تمہیں بھول گیا ہے کہ ان کا ولایت والا ہاتھ تیری شفا کے لئے تیرے سر پر پھرا ہے؟ تم ٹھیک ہوگئے ہو اور انشاء اللہ تعالی تم باخیر و عافیت گھر واپس آؤگے۔ آپ پریشان نہ ہوں اور ہمت سے کام لیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اگر ڈاکٹروں کی تشخیص یہ ہے کہ آپ آپریشن ضروری ہی تو آپ اپنا آپریشن کروالیں انشاء اللہ آپ خیریت سے گھر واپس آئیں گے۔
اسی وقت کہ جب مجھے تھوڑی ہمت ملی اور زندگی کی امید لگی تو ماں نے کہا:
جیسے ہی میرا فون کٹے تو آپ وضو کرکے زیارت عاشورا کو پڑھیں، امام خمینی (رح) کے ہاتھوں کی برکت سے اور زیارت عاشورا کی برکت سے آپ ٹھیک ہوجائیں گے اور خیر و عافیت سے گھر واپس آئیں گے۔
ہماری بات ختم ہوگئی میرا دل روشن ہوگیا۔ نور کا شعلہ میری اندرونی مایوسی کو ختم کرنے لگا۔ لہذا میں اٹھا اور زیارت عاشورا پڑھی اور کاغذ پر سائن کئے مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور آپریشن کیا، آپریشن کے بعد تمام ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ آپریشن کامیاب ہوا اور خلاف توقع کامیاب رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے کہا کہ آپ تین یا چار ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ لیکن امام (رح) کے ہاتھ کی برکت سے اور زیارت عاشورا کی برکت سے میں آج تک زندہ ہوں اور کوئی مرض اور بیماری بھی نہیں ہے۔
پا بہ پای آفتاب، ج 3، ص 79-81