وہ انقلاب جو تہراں کی خاک سے پھوٹا / ہزار روشنیوں کے جلو میں زندہ ہے
رہے گا تا بہ ابد اس کا نورِ تابندہ / کہ اس کو خونِ شہیدان نے رنگ بخشا ہے
اس انقلاب کا پر چم ہے ایسے ہاتھوں میں / جنہیں کبھی کوئی طاقت جھکا نہیں سکتی
یہ سرفراز قیامت تلک رہیں گے یونہی / کہ موت بھی کبھی ان کو گرا نہیں سکتی
یہ انقلاب ہے تعبر سبر خوابوں کی / یہ انقلاب سبھی شب کدوں میں پھیلے گا
یہ انقلاب گلوں کا حَسین تحفہ ہے / یہ انقلاب ابھی قریہ قریہ مہکے گا
اس انقلاب نے آنکھوں کا نور بننا ہے / اس انقلاب کے مہتاب ڈھل نہیں سکتے
وہ سامراجی خدا ہوں کہ ان کے پروردہ / اس انقلاب کے تیور بدل نہیں سکتے
شعورِ تازہ، کہ جس کا ظہور قم میں ہوا / تمام عالم اسلام اس سے روشن ہے
اب اس شعور نے ہر سمت پھیل جانا ہے / کہ یہ مہکتے گلابوں کا ایک گلشن ہے
عَلَم اٹھاؤ، کہ اب وقت کی صدا ہے یہی / قدم بڑھاؤ کہ ظلمت کی سر درات ڈھلے
اٹھاؤ سر، کہ بلاتا ہے انقلاب ہمیں / ملاؤ ہاتھ، کہ اب وقت اپنے ساتھ چلے