نامہ نگار مہر کی خبر کے مطابق حجت الاسلام سید علی موسوی نے شہر قیدار کی نماز جمعہ میں بیان کیا کہ سن 88/ کے فتنہ میں فتنہ انگیز افراد کی حمایت ایک اہم ترین زخم ہے اور یہ ایرانی قوم کو انگلیڈ سے ملا ہے۔ انگلینڈ کے وزیر خارجہ جانسون کے ایران سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اضافہ کیا: انگلینڈ کا وزیر خارجہ ایسے حالات میں ایران آیا جب مغربی ذرائع ابلاغ انگلینڈ کے ایران میں دو گرفتار جاسوس کی آزاد پر کافی دباؤ بنارہے تھے۔
اس نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: جانسون کا سفر تہران رسمی طور پر قدار تھا کہ ایران اور انگلینڈ کے اقتصادی تعلقات کو بحال کرنے میں پسا برجام کے مسائل کے باب میں مذاکرہ ہو؛ انگلینڈ ذرائع ابلاغ کی کوشش اور خود جانسون کی تقریر سے اس کا سفر ایران میں گرفتار دو انگلینڈ کے جاسوس کی آزادی میں تبدیل ہوا۔
موسوی نے اضافہ کیا: ایک طرف سے انگلینڈ جو برجام کے بارے میں 1+5 مذاکرہ کرنے والوں کے عنوان سے رہا ہے اور ایران سے معاہدے کئے ہیں۔ یہ ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے برجام کے سلسلہ میں اپنے عہد کی پابندی نہیں کی۔
قیدار کے امام جمعہ نے کہا: ایسے حالات میں ہمارے مسئولین انگلینڈ کے خاص اغراض و مقاصد کی طرف توجہ دیں اور اس طرح کے عہد شکن افراد سے خوش خیالی سے پرہیز کریں۔ اور اس بوڑھی لومڑی کے دھوکہ میں نہ آئیں۔
موسوی انگلینڈ کو حق بشر کو پامال کرنے والا اور مشرق وسطی میں نظم و ضبط اور امن و امان کو درہم برہم کرنے والا اور برجام کے بارے میں ایک بے وفا ملک جانا ہے اور کہا: انگلینڈ امریکہ کے ساتھ یمن اور بحرین کے لوگوں کے قتل عام میں شریک ہے اور انہوں نے برجام کے سلسلہ میں لندن میں موجود انگلینڈ کے بینکوں میں عام کھاتا کھولنے کی بھی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مقام معظم رہبری کی نظر میں انگلینڈ ہمیشہ امریکہ کے راستہ کو صاف کرنے والا رہا ہے، کہا: ایرانی عوام اس سامراجی نظام کی کینہ توزیوں اور خیانتوں کے گہرے زخم سے دوچار ہے۔ ایرانی عوام 88/ کے فتنہ اور 28/ مرداد کے شرمناک بغاوت میں بوڑھی لومڑی کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔
قیدار کے امام جمعہ مدارس اور یونیورسٹی کے درمیان اتحاد کے دن اور ڈاکٹر محمد مفتح کی شہادت کی مناسبت سے کہا: امام راحل (رح) ابتدا ہی سے حوزہ اور یونیورسٹی کی جدائی کی آفت کی طرف متوجہ تھے اور ان دونوں موثر ادارہ کی جدائی کے تصور سے غمزدہ رہتے تھے۔ ان دونوں موثر اور مفکر طبقوں کو جدا کرنا اور ان کے درمیان اختلاف کا باعث دنیا کا خون پینے والوں کی منصوبہ بندی سمجھ رہے تھے۔
موسوی نے یہ بیان کرنے کے بعد کہ آپ (رح) ان دونوں دھڑوں کے درمیان محبت اور رابطہ کی تاکید کرتے تھے، کہا: شہید مفتح اور شہید مطہری حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں پیشقدم لوگوں میں سے تھے کہ انہوں نے عملی طور پر اقدام کیا اور اس راہ میں بلند و بالا قدم اٹھائے اور پورے انقلاب کے دوران اس جہت میں اچھے اچھے اقدامات ہوئے ہیں۔ البتہ مطلوبہ مقصد تک رسائی کے لئے ابھی کافی راستے طے کرنے ہیں۔
انہوں نے یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان اتحاد امام خمینی (رح) کی گرانقدر یادگار ہے، کہا: ہمیں حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان بڑے پیمانہ پر اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے ایک اسلامی علوم کی پیداوار ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ حوزہ اور یونیورسٹی اس کے تحقق کے لئے باہمی تعاون اور تعامل کی محتاج ہے۔
موسوی نے کہا: حوزہ اور یونیورسٹی ایک دوسرے کی بھر پور مدد کریں اور علوم کو اسلامی بنائیں۔ درحقیقت حوزہ اور یونیورسٹی ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں تو حوزہ اور یونیورسٹی کے اتحاد کے نتائج کا مشاہده کریں گے۔ منجملہ علم کا تکامل، دشمنوں کی مایوسی اور ملک کی ترقی کی راہ میں سرعت ہے۔