سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، جائز مقاصد کی راہ میں جدوجہد اور مستکبرین کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے تصور کا نام ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شدید غصے میں ہے اور ان دنوں جو کچھ اس کی زبان سے نکل رہا ہے اور اسکے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے وہ ایک ایسے زخمی بھیڑیئے کے رونے سے شباہت رکھتا ہے جو اپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے آخری رکاوٹ برطرف کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔
امریکہ گلوبل ولیج کا چوہدری بننے کا خواہش مند ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک طاقتور دفاعی ونگ ہونے کے ناطے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایسا نہیں ہونے دیتی؛ ٹرمپ شدید غصے میں ہے، ماضی کے تمام امریکی صدور کی طرح جو سپاہ پاسداران پر غضب ناک تھے۔
امریکی صدر سب سے بہتر اس حقیقت کو درک کر رہا ہےکہ آج دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سپاہ پاسداران کس مقام پر کھڑی ہے اور ٹرمپ امریکی جاہ طلب مفادات کی گردن پر سپاہ کے فوجی بوٹوں کے دباو کا احساس کر رہا ہے۔
آج امریکہ اپنے صدر مملکت کے ہمراہ، جو اپنے ڈیموکریٹک حریفوں کے برخلاف جو دل میں آتا ہے اگل دیتا ہے، غیر متوقع انداز میں ایران اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے خلاف اپنی تمام سرگرمیوں کا اصلی مقصد بیان کر چکا ہےکہ ایران اور سپاہ پاسداران دہشتگرد ہیں!! یہ وہی مقصد ہے جو ماضی کے امریکی صدور انتہائی مودب اور پیارے انداز میں عالمی رائے عامہ کے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے اور دنیا والوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ملٹری ونگ یعنی سپاہ پاسداران درحقیقت دہشتگرد ہیں، لیکن وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں آئے ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں اور انہیں علم نہیں کہ آج کے حالات 1979ء کے حالات سے کہیں زیادہ مختلف ہیں جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا۔ نہیں معلوم وہ کیا سوچ کر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو للکارنے لگا ہے؟ آخر سپاہ پاسداران نے ایسے کیا اقدامات انجام دیئے ہیں جن کی بنیاد پر ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے سال میں ہی سپاہ پاسداران سے مقابلے کو اپنے اصلی اہداف میں سے ایک بیان کرتا ہے؟
ان سوالات کا جواب دینے کیلئے ہمیں میدان عمل پر ایک نظر دوڑانی پڑےگی۔
جب عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام نے اپنی ہی عوام کو طاقت کے زور پر کچلنا شروع کیا تو سپاہ پاسداران نے ان کی حفاظت کی؛ آج عراق کے زیر انتظام کردستان بھی ماضی میں صدام کے مقابلے میں انجام پانے والی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بھرپور حمایت اور مدد کا انکار نہیں کرسکتے؛ ابھی انہیں گذشتہ چند سالوں میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی یلغار کے مقابلے میں سپاہ پاسداران ہی تھی جو عراقی کردوں اور شام کی عوام کی محفوظ پناہگاہ ثابت ہوئی۔
جنوبی لبنان میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا کردار صرف دفاعی حد تک محدود نہ تھا بلکہ ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ لبنان کی سرزمین امریکہ کے دوست اور بھائی ملک اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروا لی گئی اور اصلی مالکین یعنی لبنانی عوام کے سپرد کر دی گئی۔
شام میں جاری خانہ جنگی کو چھ برس اور عراق میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کو گھسے تین سال اور چند ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ شام کا محاذ ایک ایسا محاذ جس کے ایک طرف صدر بشار اسد کی قانونی حکومت ہے جبکہ دوسری طرف حکومت مخالف گروہ موجود ہیں۔ امریکی اور مغربی میڈیا کی بھرپور کوشش رہی ہےکہ وہ شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کو شامی عوام کے طور پر ظاہر کرے۔
سپاہ پاسداران، شام کی قانونی حکومت کی درخواست پر شامی عوام کے تحفظ کیلئے اس ملک میں داخل ہوئی؛ البتہ سپاہ کا یہ اقدام اس وقت امریکہ سے ٹکر میں تبدیل ہو گیا جب امریکی حکومت نے شام میں صدر بشار اسد کی قانونی حکومت کو سرنگون کرنے کا عندیہ دے ڈالا۔
یوں شام میں بھی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی امریکہ کے ناجائز مفادات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ عراق اور شام میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی طاقتور موجودگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکہ خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہیرو قرار نہیں دے سکتا۔ اگر مشرق وسطی خاص طور پر عراق اور شام میں صرف جنرل قاسم سلیمانی کی محبوبیت پر ہی ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوجائےگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غضب ناک ہونے کا حق رکھتا ہے یا نہیں۔
یہ تمام محاذ درحقیقت خطے میں امریکی اثر رسوخ بڑھانے کی فرنٹ لائن تھے جن پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا اور امریکہ کے تمام ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی درحقیقت ہر جگہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک مضبوط بازو کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔
حوالہ: اسلام ٹائمز سے اقتباسات