دشمن کا مقابلہ کرنے کا دوسرا اصول

نیک ہدف کا حصول ناجائز طریقوں سے جائز نہیں

خدا کی قسم معاویہ مجھ علی سے زیادہ ذہیں اور سمجھ دار نہیں ہے لیکن وہ مکر و فریب اور شریعت کے خلاف کام کرتا ہے

اکثر سیاستدانوں کا اپنے دشمنوں کو شکست دینے اور اپنے مطلوبہ اہداف تک رسائی حاصل کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر جائز اور ناجائز چیز کا سہارا لینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یعنی اگر انہیں اپنے اہداف کی خاطر سارے کے سارے اخلاقی اصولوں؛ چاہے وہ نظریاتی ہوں یا عقیدتی کو پامال کرنا پڑے تو وہ ذرا برابر بھی دریغ نہیں کرتے۔ دین اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے کہ جس میں اخلاقی اور اعتقادی اصول صاف صاف بیان کیے گئے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لئے ان قوانین کی خلاف ورزی نہ کرے بلکہ ان کے اندر رہتے ہوئے اس کا مقابلہ کرے کیونکہ اسلام کبھی بھی اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لئے الہی قوانین کو پشت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ابن ابی الحدید ایک سنی عالم دین امیر المومنین علی علیہ السلام کے اس کلام کے ذیل میں لکھتا ہے:

والله ما معاویہ بادہی منی و لکنہ یغدرو یفجر

خدا کی قسم معاویہ مجھ علی سے زیادہ ذہیں اور سمجھ دار نہیں ہے لیکن وہ مکر و فریب اور شریعت کے خلاف کام کرتا  ہے جبکہ مجھے دیں، اس بات کی اجازت نہیں دیتا:

معاویہ کی سیاست یہ تھی کہ اس کی حکومت کو فائدہ پہنچنا چاہیئے چاہے وہ جائز طریقے سے ہو یا ناجائز طریقے سے اور اسی طرح چاہے ان فوائد کے حصول کے لئے دینی احکام کی رعایت ہو یا نہ ہو، اس بات سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا جبکہ اس کے برعکس علی علیہ السلام ہمیشہ شریعت کے پابند اور مقید تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست اگر اسلامی اصولوں کے ماتحت نہ ہو تو اسلامی اہداف کا حصول ممکن ہی نہیں ہے اور ایسے میں اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کا انعقاد اور توحید پرستی کی ترویج بھی، اپنے حقیقی مفاہیم کے ساتھ نہیں ہو پائے گی۔

حضرت امام خمینی(رح) نے سیاست کو مکتب پیامبر صلی اللہ علیه و آلہ و سلم اور اہل بیت علیہم السلام سے سیکھا تھا۔ اور اس لئے انہوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تحریک کی ابتدا سے کامیابی تک ہمیشہ، آپ اسلام کے ان بنیادی اصولوں کی یادآوری کرتے رہے اور عموما فرمایا کرتے تھے:

ہمارا فریضہ اپنی الہی ذمہ داری کو انجام دینا ہے لہذا ہمیں اپنے انجام دئے گئے کام کے نتیجے سے کوئی سروکار نہیں۔

کچھ لوگ امام (رح) کے اس فرمان کو صحیح طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں لہذا وہ کہتے ہیں: کس طرح ممکن ہی کہ هم نتیجے کو اپنے فریضے اور ذمہ داری سے جدا کریں؟

ای میل کریں