رسول اللہ (ص): "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" جس کا میں مولا اور سرپرست ہوں، اس اس کا یہ علی مولا ہے۔
آج سے 1428 قمری سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ حج انجام دینے کے بعد لگ بھگ ایک لاکھ صحابہ کرام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ واپس آ رہے تھےکہ غدیر خم کے مقام پر اللہ تعالٰی کے حکم سے جبرئیل امین (ع) نازل ہوئے اور اللہ کا یہ پیغام رسول خدا (ص) کو سنا دیا:
يَأَيهَّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يهَدِى الْقَوْمَ الْكَافِرِين" اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام ہی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھےگا، بےشک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
اس آیت کے فوراً بعد رسول خدا (ص) نے حکم فرمایا کہ لوگوں کو یہاں روکا جائے اور جب تمام صحابہ کرام جمع ہوگئے تو ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں پر خود تمہارے نفسوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟
سب نے بیک زبان کہا: جی آغا، بالکل!
اس کے بعد فرمایا: "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" جس کا میں مولا اور سرپرست ہوں، اس اس کا یہ علی مولا ہے۔
اس کے بعد یہ دعا فرمائی: اے اللہ تو اس سے محبت فرما جو اس (علیؑ) سے محبت رکھے اور تو اس سے نفرت کر جو اس (علیؑ) سے نفرت اور دشمنی کرےگا۔
اسلام ٹائمز کے مطابق، اسی دن، عید اللہ الاکبر کی 1428ویں یاد آج پوری دنیا میں نہایت جوش و خروش سے منائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں شہر شہر، گلی گلی، آج نعرہ حیدری سے گونج رہی ہے۔ پوری دنیا اور پاکستان بھر کی طرح، آج سرزمین شہداء "پاراچنار" کی مرکزی امام بارگاہ میں بھی جشن عید غدیر پورے جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سابقہ روایات کے مطابق دو روزہ جلسے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جلسے سے خطاب کےلئے علاقائی علماء کے علاوہ باہر سے جید علمائے کرام اور مقررین کو بھی دعوت دی گئی۔ جلسے میں شرکت کےلئے پنجاب سے علامہ نصیر حیدر تشریف لائے، ان کے علاوہ اے پی اے کرم، نائب تحصیلدار کرم، عمائدین و بزرگان قوم کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی۔
سابقہ روایات کے مطابق جلسے کی دو نشستیں منعقد کی گئیں، پہلی نشست میں مقامی نوحہ خوانوں اور علمائے کرام کے بعد مولانا نصیر حیدر کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے مولائے متقیان شیر خدا امام علی مرتضٰی علیہ السلام کے فضائل بیان کئے۔ مولا علیؑ کے متعدد فضائل بیان کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اس مختصر سی مجلس میں مولا کے فضائل کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، تاہم مومنین یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ مولا کے فضائل کا حق صرف سننے سے ادا نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر مومن کو خود بھی مولا کی سیرت و کردار اپنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مولا خود بہادر اور شجاع تھے نیز ایسی صفات حمیدہ کے حامل افراد سے محبت کیا کرتے تھے، لہٰذا ہمیں اپنے مولا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود بھی شجاع ہونا چاہیئے۔
امام علیؑ سخی اور ہمدرد تھے، ہمیں بھی عوام سے ہمدردی کا مظاہرہ اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیئے۔
مولا علی (ع)، اللہ کی بندگی، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج و غیرہ کے خود نہایت پابند تھے، لہٰذا مومنین کو فروع دین کی ادائیگی کا خاص لحاظ رکھنا چاہیئے۔
ہم جس مولا کا دم بھرتے ہیں، اگر ہمارے کام مولائی نہیں تو ہمارا مولا سے کیا واسطہ۔
انہوں نے کہا کہ مولا علیؑ جو کام سرانجام نہیں دیتے تھے، ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی انہیں ترک کر دیں۔
انہوں نے مولا علی علیہ السلام کے فضائل و خصائل کو عوام الناس کےلئے نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب مولا کے ماننے والے ہیں، مولا ہی کی خاطر مولا کے ماننے والوں سے محبت کیا کریں۔ اپنے اختلافات کو بھُلا کر صرف علی کے نام پر ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو بخش دیں اور اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے علاقوں میں شجاعت و دلیری کےلئے اہلیان پاراچنار کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن شجاعت اور دلیری کےلئے آپ کے مابین اتحاد و اتفاق کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ عبادت صرف اللہ کےلئے ہوتی ہے اور عبادت میں کسی چیز کو بڑھانا یا کم کرنا ہمارا کام نہیں بلکہ یہ شارع کا کام ہے۔ شارع نے اللہ کے حکم سے ایک رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے قرار دیئے ہیں، جبکہ سجدہ نماز کا افضل ترین رکن ہے اور اگر ہم نماز میں اپنی مرضی سے دو کی بجائے تین سجدے انجام دیں تو اس سے ہمیں ثواب نہیں بلکہ نماز باطل ہو جائےگی۔
مولا کے فضائل اور دیگر مسائل بیان کرنے کے بعد انہوں نے سیدہ کونین بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے مصائب پڑھ کر پہلی نشست اختتام کو پہنچا دی۔