شہید عباس ارشاد تہران میں پیدا ہوئے انھوں نے اپنی زندگی کو غریبوں کی خدمت میں بسر کی۔
قرآن و عترت نیوز کے ثقافتی گروپ کی نیوز کی رپورٹ کے مطابق :شہید عباس ارشاد 1323 میں تہران میں پیدا ہوئے اور اپنی با برکت زندگی کو ایک مصلح کے طور پر پسماندہ اور غریبوں کی خدمت میں بسر کی۔
انھوں نے 17 شہریور کے بعد اپنے ہمفکر دوستوں سے ملکر ایک اسلامی سوسائٹی بنائی جس کے ذریعے وہ شہداء کے اہل خانہ، معذورین کی حمایت اور ظالم حکو مت کے جرائم کو بے نقاب کر رہے تھے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور عبوری حکومت کے آخری دنوں میں ان کو طلباء اور عملے کی جانب سے فیکلٹی کا ڈین مقرر کیا گیا۔
تعلیمی امور کو منظم اور موجود مسائل کو بیان کرنے کی وجہ سے ویلفیئر آرگنائزیشن نے انھیں ڈپٹی ایجوکیشن کی ذمہ داری سونپی لیکن ان سارے عہدوں اور ذمہ داریوں کے باوجود بھی شہید عباس ارشاد جنگ میں حاضر ہوئے اور اپنے ملک کا دفاع کیا اور امداد کے تسلسل کے عملے کے سربراہ کے طور پر جنگ کے ابتدائی دنوں سے ہی کرمانشاہ کے لئے گئے تھے اور اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اسی میداں میں غریبوں کی خدمت کرتے رہے اور ہمیشہ ان کا ایک ہی نعرہ تھا امام کی زندگی کے ایک لحظے پر میری جان قربان۔
شہید عباس ارشاد اپنے اہل خانہ کے لئے اپنے وصیتنامہ میں لکھتے ہیں:میں اپنی شریک حیات سے چاہتا ہوں ہمیشہ استور اور محکم رہے اور یہ جان لے کے قول خداوند کے مطابق جن کی اولاد راہ خدا میں شہید میں ہوتی ہے خداوند متعال ان کا حامی اور مدد گار ہے انشاء اللہ کہ میری موت بھی اسی راستے پر ہو۔
آخر کار وہ 7تیر 1360 میں منافقوں اور دہشتگردوں کے بزدلانہ حملہ میں شہادت کے عظیم درجہ پر فائزہوئے۔