ناراض مت ہوئیےگا لیکن محسوس ایسا ہوتا ہےکہ اس شدید ردعمل کے پیچھے کہیں نہ کہیں کچھ مسلکی "محبت" کا عمل دخل ضرور ہے، چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔
ایران کے آرمی چیف جنرل محمد باقری کے دھمکی آمیز بیان پر پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست کو دفتر خارجہ طلب کرکے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ایرانی سفیر کو بتایا گیا کہ ایران کے فوجی سربراہ کی طرف سے گزشتہ روز یہ بیان دیا گیا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کی جائےگی۔
گزشتہ دونوں افغانستان نے چمن بارڈر پر فائرنگ کی جس سے ہمارے فوجی جوانوں سمیت متعدد شہری شہید ہوئے۔ ہماری جانب سے بعد ازاں جوابی کارروائی بھی ہوئی۔ سوشل میڈیا وہ اکثریت جو کسی بھی بیرونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے موقف کی ترجمان ہے، اس اکثریت نے افغانوں کو حسب توفیق باتیں سنائیں، احسان فراموشی کے طعنے دئے اور پھر بات آئی گئی ہوگئی، کیونکہ ریالوں کی بارش نہیں ہوئی۔
دہشت گردوں پر حملے کا بہانا بنا کر سینکڑوں امریکی ڈرونز حملوں اور ہزاروں معصوم پاکستانی جانوں کے نقصان پر یہ ہی میڈیا واویلا نہیں کرتا اس طرح کا واویلا نہیں کرتا۔ لیکن کیا وجہ ہےکہ ایرانی جنرل کے صرف بیان پر اسی اکثریت کا ردعمل حد سے زیادہ ہے؟ منہ سے جھاگ نکلنے والی سی کیفیت ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک دانشور عرق ریزی کررہا ہے۔
ایرانی جنرل نے صرف دھمکی ہی دی تھی، وہ بھی ان محفوظ پناہ گاہوں پر حملے کی جہاں اس کے مطابق "جیش العدل" کے دہشتگرد چھپے ہوئے ہیں۔ کوئی اسلام آباد، کراچی اور کوئتہ پر حملے کی دھمکی نہیں بلکہ ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جن کو پچھلے 20 سال سے پاکستانی فورسز ایران پر حملوں سے روکنے کی کوشش کررہی ہیں، افغانستان کی طرح فوجی جوانوں اور عام شہریوں پر حملہ تو نہیں کردیا تھا تو پھر یہ اتنا شدید ردعمل کیوں؟ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ معاملہ ایران کا ہو اور ساتھ میں شیعوں کو بھی حسب توفیق رگڑا نہ لگایا جائے۔ کل سے اب تک یہی دیکھ رہے ہیں ہم۔
ہم مانتے ہیں کہ سفارتی سطح پر ان امور پر جاری بات چیت کے ہوتے ہوئے ایرانی جنرل کا بیان کچھ لوگوں کے نزدیک بے وقت کی راگنی جیسا تھا لیکن ذرا ردعمل پر تو غور فرمایئے، اتنا غصہ؟
ناراض مت ہوئیےگا لیکن محسوس ایسا ہوتا ہےکہ اس شدید ردعمل کے پیچھے کہیں نہ کہیں کچھ مسلکی "محبت" کا عمل دخل ضرور ہے، چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ حقیقت ہمیں کچھ یہ نظر آئی کہ طعنہ تو کچھ پاکستانی شیعوں کو دیا جاتا ہےکہ وہ شیعہ ملک ہونے کی وجہ سے ایران کی حمایت کر گزرتے ہیں لیکن ہمیں ایران سے نفرت کا پہلو کچھ زیادہ نظر آیا، امید ہے اس کی وجہ شیعوں سے نفرت نہ ہوگی۔ ورنہ آپ خود غور کرلیں کہ آیا افغانستان کا عام پاکستانی شہریوں پر حملے پر آپ کا ردعمل زیادہ تھا یا ایرانی جنرل کی دہشت گردوں پر حملہ کی دھمکی پر؟
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایرانی سفیر کو طلب کرکے جنرل باقری کے بیان پر شدید احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایران نے کچھ روز قبل جنرل راحیل کے سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی پر شدید تحفظات ریکارڈ کروا دیے تھے۔ یہی درست طریقہ ہے اور امید ہے ہمیشہ کی طرح معاملات سیٹ ہوجائیں گے۔
امید ہے دونوں پڑوسی ملک ایک دوسرے کے تحفظات پر غور کریں گے اور معاملہ بات چیت سے حل کر لیں گے۔
پاک فوج جانتی پےکہ ایران ایک ایسا اسلامی اور دوست ملک ہے، جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا، بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کا مددگار رہا، کشمیر کے مسئلہ پر مکمل ہم آہنگ ہے۔
پاک فوج جانتی ہےکہ ایران اور ایرانی میڈیا نے پاکستان کی سرزمین پر تکفیری دہشت گردوں کے ہاتهوں اس کے ایرانی ڈپلومیٹس، انجینیرز، ائیر فورس کیڈٹس، ڈائریکٹر خانہ فرہنگ اور سیکڑوں بارڈر گارڈز کے قتل پر پاکستان کے بجائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ہی ہمیشہ مورد الزام ٹھرایا ہے۔
ویسے میڈیا میں بیٹھے کچھ اینکروں کی بک بک سعودی ریالوں کی بارش کی وجہ سے پانی کے بلبلہ ہیں۔
باقی کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کےلئے ہر وقت فیسبک پر تیار بیٹھی برگیڈ کا کیا کہنا ہے، چاہے تو اپنے ملک میں گرتی لاشوں پر چپ بیٹھی ریے، چاہے تو ایک جنرل کی دھمکی ہر زمین آسمان کے قلابے ملا کر مسلکی کارڈ بھی کھیل جائے۔
پاکستان ہمارے بزرگوں نے بنایا، قائد اعظم، راجا صاحب اور سینکڑوں قائدین شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور آج تک ایک شیعہ بهی پاکستانی فورسز، مساجد، مزاروں، ائیر پورٹس، دفاعی تنصیبات، اسکول کے بچوں اور معصوم لوگوں پر فائرنگ اور خودکش بموں کے حملے میں ملوث نہیں۔
پاکستان کو دشمنوں کی سازشوں سے اور دوست ہمسایہ ممالک سے لڑانے کی سازشوں سے بچانے کی پہلی ذمہ داری ہم شیعوں پر لازم ہوتی ہے۔
انشاءاللہ پاکستانی افواج اب دہشت گردوں کو بلوچستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دےگی ورنہ چائنا بلوچستان میں CPEC پراجیکٹ کو جاری نہیں رکھ سکےگا، وہ بهی ان تکفیری دہشت گردوں کی موجودگی میں جو کسی بھی وقت امریکی اشارہ پر چائنیز انجینیرز اور سرمایہ کاروں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں اور ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔
اگر چائنا نے بھی ہاتھ اٹها لیا اور سنکیانگ صوبہ میں پاکستانی جماعتوں کا پیدا کردہ شدت پسندی کا مسئلہ لے کر آگیا تو پهر تو ہمارا دوست صرف سمندرستان کا بارڈر ہی رہ جائےگا۔
انشاءاللہ پاک فوج ایسا نہیں ہونے دےگی۔