کوثر سینٹر کے صدر حجہ الاسلام والمسلمین شیخ عباس کاظمی

امام خمینی (رہ) کی علمی شخصیت سے غافل ہیں

ترکی میں اسلامی انقلاب کے بعد شیعوں کو شناخت ملی

ترکی میں کوثر سینٹر کے صدر حجہ الاسلام والمسلمین شیخ عباس کاظمی نے ترکی میں امام کے کردار کے اثر ان کی حیثیت اور اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں ترکی کے شیعوں کے حالات کے بارے میں بتایا ۔

انھوں ترکی میں امام خمینی رہ کی پوزیشن کے بارے میں کہا امام رہ جامع کردار کے مالک تھے جس پہلوسے بھی دیکھیں امام کو رفیع مقام پر پاتے ہیں ترکی میں امام کے چاہنے والے بہت زیادہ ہیں خاص کر اہل سنت میں لیکن جتنے چاہنے والے ہیں اتنے ہی دشمن بھی ہیں لیکن میری نظر میں جو خاص نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ امام رہ کی  علمی شخصیت ابھی نہیں پہچانی گئی ابھی تک صرف امام کی سیاسی زندگی کی معرفت حاصل ہوئی ہے میری نظرمیں ان کی علمی شخصیتی کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اور ہمیں اس کو مکمل کرنا ہے۔

شیخ عباس کاظمی نے ترکی میں  اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں شیعوں کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا اسلامی انقلاب سے پہلے ترکی میں شیعوں کی کوئی پہچان نہیں تھی معمولا ترکی کے مشرق میں کچھ شیعہ ہیں لیکن جب وہ ترکی کے بڑے شہروں آنکارا ا ور استنبول میں آتے تھے تقیہ کرتے تھے اورمساجد میں نہپیں جاتے تھے اگر چلے بھی جاتے تو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے۔

لیکن اسلامی انقلاب کے بعد ترکی میں شیعوں نے اپنی پہچان بنائی انقلاب سے پہلے استنبول میں صرف ایرانی شیعوں کی ایک مسجد تھی لیکن اب استنبول میں 30 سے بھی زیادہ مساجد ہیں یہ سب اسلامی انقلاب کی برکت اور خاص کر امام رہ کے وجود کی برکت سے ہے۔

شیعوں نے یہاں پر امام رہ کی وجہ سے اپنی پہچان بنائی یعنی اسلامی انقلاب کے بعد ترکی کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہاں پر علویوں کے علاوہ شیعہ بھی موجود ہیں کئی میلیون علوی ترکی میں موجود ہیں جن کو اہل سنت غیر مسلم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے مذہب میں عملی احکام نہیں پاے جاتے اعتقادات کے حساب سے شیعوں کی طرح ہیں لیکن نماز روزہ اور حج کے قائل نہیں اسی لئے اہل سنت ان کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔

جب شیعوں نے پہچان بنائی تو وہ سمجھے کے یہ بھی علویوں کی طرح ہیں لیکن ان کے دین میں عملی احکام موجود ہیں نماز پڑھتے ہیں اور حج پر بھی جاتے ہیں ترکی میں شیعوں کی بہترین پہچان اسلامی انقلاب اور امام رہ کی وجہ سے ہوئی آج استنبول میں محرم اور صفر میں مجالس اور عزاداری برگزار ہوتی ہیں یہ سب اسلامی انقلاب سے پہلے نہیں تھے بلکہ اسلامی انقلاب کے بعد میں ہوا ہے ترکیہ میں نسلی شیعہ نہیں ہیں لیکن مستبصر ہیں جو خود ہی انجمنیں بناتے ہیں اور عاشورا کے دن مجالس مناتے ہیں۔

ترکیہ میں الحمد للہ شیعہ ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ابھی بھی بہت سارے کاموں کی گنجائش باقی ہے شاید ابھی ہم نے صرف دس پرسنٹ راستہ طے کیا ہے جب کہ میدان بہت وسیع ہے جس میں حرکت کرنا ہے اور مختلف شعبہ جات ہیں جن پر کام کرنا باقی ہیں عصر حاضر میں علویوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جس میں سوریہ کے مسائل کے بعد اضافہ ہوا ہے پہلے ترکی علوی اور شیعوں کے درمیان ایک فاصلہ تھا لیکن سوریہ کے حالات کے بعد ایران اور علویوں کے درمیان موجود فاصلہ ختم ہو رہے ہیں۔


ای میل کریں