قائد اعظم محمد علی جناح: دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دےگا۔
پاکستان کے بننے کے بعد 1947ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایا جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا:
" دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دےگا۔ مجھے توقع ہےکہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہےکہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی 5 لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انھیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی"۔
ترکی اور اسرائیل کے مابین چھ سال سے بگومگو میں رہنے والے تعلقات بالآخر بحال ہوگئے ہیں۔ بحالی کے سلسلے میں گذشتہ تین برس سے جو کوششیں جاری تھیں وہ رنگ لے آئی ہیں۔ اس سلسلے میں جس معاہدے کی منظوری دی گئی ہے، اس کے مطابق انٹیلی جنس کے میدان میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اسرائیلی کابینہ کی طرف سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق دونوں ملکوں میں سفراء کا تقرر عمل میں لایا جائےگا۔ شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت ممکن ہوگی۔ دونوں ملک اس کے بعد ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں گے۔ معاہدے کے مطابق خاص طور پر امریکا کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نیٹو اور اقوام متحدہ کی تنظیموں میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔
ماضی میں ترکی غزہ کی پٹی کا معاشی محاصرہ ختم کرنے کی شرط عائد کرتا رہا ہے۔ مگر اب کلی طور پر اس شرط سے دستبردار ہوگیا ہے۔ اب اگر ترکی غزہ کی پٹی میں سامان لے جانا چاہےگا تو اسے اسرائیل کی اشدود بندرگاہ کے راستے لے جانا پڑےگا اور اس کےلئے تل ابیب کی پیشگی منظوری لازمی ہوگی۔ اسرائیل کو ترکی سے غزہ لے جانے والے سامان کی پوری طرح تلاشی لینے اور مانیٹرنگ کرنے کا حق ہوگا۔ ترکی نے عام مسلمانوں کو مطمئن کرنے کےلئے اس سلسلے میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہےکہ اس معاہدے کے بعد وہ اسرائیلی محاصرے میں موجود غزہ کے عوام کی مدد کرسکےگا۔
دوسری طرف غاصب اسرائیل نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہےکہ ترکی کے ساتھ اسرائیل کا معاہدہ تل ابیب کےلئے معاشی و سکیورٹی کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے ایرانی دہشت گردی گوشہ نشینی کا شکار ہوگی اور خطے میں عظیم اتحاد ایجاد ہوگا۔
یہ بات اہم ہےکہ ایران اسرائیل کے خلاف نبرد آزما فلسطینی تنظیموں کی مسلسل حمایت کرتا چلا آرہا ہے اور اس نے 1979ء میں شاہ کے دور میں قائم کئے گئے سفارتی تعلقات کو ختم کر دیا تھا اور اسرائیلی سفارتخانے کی عمارت اس دور میں یاسر عرفات کے تنظیم کے سپرد کر دی تھی۔ تب سے آج تک ایران اپنے اس موقف پر قائم چلا آرہا ہے۔
سالہا قبل، امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے اس مسئلے کو حکومتوں کی گرفت سے نکال کر عوام سے جوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ ہےکہ وہ یوم القدس کو یوم اللہ، یوم اسلام اور یوم مستضعفین کہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک دن آئےگا، جب مستضعف عوام یہ جان لیں گے کہ اس خطے میں اسرائیل کا قیام خطے کے عوام کے وسائل لوٹنے کےلئے ایک عالمی سامراجی سازش کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ جمعۃ الوداع اس لحاظ سے عجیب ہوگا کہ دنیا کے مستضعف عوام صہیونی ظلم و بربریت اور عالمی استعماری سازش کے خلاف یوم القدس منا رہے ہوں گے اور صہیونی میڈیا کے زیر اثر عالمی نقارے بج رہے ہوں گے اور ترکی کی طرف سے غزہ کے عوام کےلئے ہمدردی کا تحفہ بھیجے جانے کی خبر نشر کر رہے ہوں گے۔