مستضعفین

مستضعفین اور مستکبرین کے خصوصیات

علمائے اسلام کا فریضہ ہے کہ ظالموں کی اجارہ داری اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا مقابلہ کریں

امام خمینی  (ره)کی نگاہ میں  مستکبرین کے اندر درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں : تسلّط، جارحیت کرنا، ظلم وستم، عافیت طلبی، عیش کوشی، فتنہ انگیزی، تفرقہ اندازی، لوگوں  کو سبک کرنا، حقیقت کا انکار (مظلوموں  اور بعض اوقات خدا ورسول پر پردہ ڈالنا) منہ زوری، بزدلی، زیادہ طلبی، مفت خوری، موذی پن، حیلہ بازی، مکاری، قوم پرستی اس کے علاوہ مستکبرین کی کوشش ہوتی ہے کہ مستضعفین میں  خود اعتمادی، یقین، ایمان، عدم انحصار کی قوت پیدا نہ ہو یا پھر ان کو قدرت سے خائف کر کے علمی، ثقافتی، اجتماعی، معاشی، سیاسی پیشرفت سے روک دیں ۔

جبکہ مستضعفین میں  یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں : انقلابی ہونا، مقابلہ میں  استقامت، شجاعت، اسلام کی پابندی، مقام ومنصب پر توجہ نہ دینا، عمل میں  اخلاص، معنوی قدرت، مطمئن، پر امید، مجاہد اور اہل دفاع اور حقیقت پسند ہونا جیسا کے آپ فرماتے ہیں :

اگر سماج کے یہ محروم نہ ہوتے جو دنیا سے اس طرح وابستگی نہیں  رکھتے جس طرح مستکبرین رکھتے ہیں   اگر محروموں  کی یہ ہمّت نہ ہوتی اور دیہاتوں  میں  رہنے والوں  اور شہر کے غریب علاقہ میں  رہنے والوں  کی ہمّت نہ ہوتی تو نہ سابق حکومت کا ظلم ختم ہوتا ارو نہ ہی ہم مشکلات کے سامنے ٹھہرسکتے۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۲۴۶)

امام خمینی  (ره) اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں  کہ ایک استکباری نظام میں  مستضعفین کے مختلف طبقے ہیں  جو یا تو مقابلہ کے میدان میں  قدم نہیں  رکھتے یا غفلت کی وجہ سے یا پھر مستکبرین کے فریب، ایمان کی کمی اور خوف کی بناپر ظالموں  کے کارندوں  میں  تبدیل ہوجاتے ہیں ، جیسے دنیا کے ممالک کے سوئے ہوئے بے خبر عوام اور حکومت کے ملازم وسپاہی۔

دوسرا نکتہ جس کا گہرا جائزہ لیا جانا چاہئے یہ ہے کہ علماء اور طلاب کا ان طبقوں  کے درمیان کیا مقام ہے؟ علماء، طلاب حتی مصنفین، دانشور، مقررین (خواہ کسی مذہب وملت کے ہوں ) سماج کے ذمہ دار افراد ہیں  اور انہیں  مستضعفین کے محاذ میں  ہونا چاہئےاور اپنے فریضہ کی بناپر مظلوم عوام کی مدد کرنی چاہئے جیسا کہ امام خمینی  (ره) فرماتے ہیں : ’’علمائے اسلام کا فریضہ ہے کہ ظالموں  کی اجارہ داری اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا مقابلہ کریں ‘‘(ولایت فقیہ، ص ۴۳)

آپ فرماتے ہیں : ’’قرآن ہے جس نے پیغمبر اسلام  ؐ کو اس طرح کے سرمایہ داروں  سے ہمیشہ جنگ کرنے کیلئے کہا ہے‘‘  ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا: ’’انبیاء  ؑ دو چیزوں  کیلئے مبعوث ہوئے ہیں :  ۱۔لوگوں  میں  معنویت پیدا کریں ،  ۲۔ کمزوروں  کو استکبار کے پنجے سے آزاد کرائیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۳۲)

علمائے اسلام کا نہایت ہی اہم کردار ہے اور وہ دین کو انحراف کے خطروں  سے محفوظ رکھنا ہے۔ امام خمینی  (ره) اپنی عمر کے آخری ایام میں  شاہی اسلام، سرمایہ دارانہ اسلام، التقاطی اسلام اور امریکی اسلام کے مقابل خالص محمدی  ؐ اسلام پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ بلاشبہ عوام دین کے ساتھ خرافات کو مخلوط کرنے اور معاشی حالات میں  اہم کردار رکھتے ہیں  لیکن دین میں  تبدیلی، تحریف حق، ظلم وزیادتی میں  شدت، گمراہ دینی علماء کے ذریعہ عمل میں  آتی ہے۔ مستکبرین اپنی حاکمیت کو باقی رکھنے اور اپنے تسلّط کو جواز عطا کرنے کیلئے غلط دینی فکر کے محتاج ہیں  جو ان علماء کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو نفسانی خواہش کی تکمیل کے پیچھے ہیں  یا جمود، قدامت پسندی اور بے پروائی کا شکار ہیں ۔ لہذا امام خمینی  (ره) کی نظر میں  ان علماء کا خطرہ ان ہلاکوؤں  سے کہیں  زیادہ ہے جو کھلے عام ظلم وستم کرتے ہیں ۔چونکہ اس صورت میں  خود یہ علماء استکبار کا حصہ بن جاتے ہیں  (جن کو درباری ملا کہا جاسکتا ہے) اس مرحلہ میں  مکار دولت پرستوں ، عیار قدرتمندوں  اور جو نما گندم فروش مقدسوں  سے وجود میں  آنے والے مثلث کی جانب امام خمینی  (ره) کا اشارہ بھی اسی مطلب کا مؤید ہے۔( صحیفہ امام، ج ۲۱، ص۵۹)

امام خمینی  (ره) کی نظر میں  مستکبرین پر مستضعفین کے غلبہ کا راز اس اسلام سے وابستگی ہے جو پا برہنہ اور سادہ لوگوں  کا اسلام ہے نہ کہ ان سرمایہ داروں  کا اسلام جو خدا سے نا آشنا ہیں  اور نہ ہی اس ملا کا اسلام جو درباری ہے اور کفر وشرک وظلم کا مقابلہ نہیں  کرسکتا۔( صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۷)

ای میل کریں