رچرڈ لبویر: یہ بات یاد رہےکہ فرانس میں سنسر شپ بہت زیادہ ہے اور ہر کوئی اپنے من پسند طریقے سے سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتا۔
رپورٹر: السلام علیکم؛ ایران آمد پر خوش آمدید کہنے کے ساتھ آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنا تعارف کروائیں۔
میں رچرڈ لبویر ہوں، 2014 سے ہفتہ وار نیوز پیپر "مشرق قریب" کے ایڈیٹر اور فرانسیسی بحریہ میں جغرافیائی اور سیاسی مسائل سے متعلق لکچرار کی حیثیت سے کام کرتا ہوں؛ ماضی میں 2003 سے 2011 تک ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے ڈپٹی ایڈیٹر، سوئس ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر اور فرانسیسی نیشنل ڈیفنس کالج کے ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا رہا ہوں اور یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ فرانس مخالف سیاسی موقف کی وجہ سے سوئس ٹیلی ویژن اور فرانسیس نیشنل ڈیفنس کالج کے عہدے سے مجھے برطرف کیا گیا۔
رپورٹر: میں موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی سے وابستہ ہوں؛ میں، شروع میں موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی کی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر وضاحت پیش کرنا چاہتی ہوں؛ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی پورٹل، فارسی زبان کے علاوہ دوسری چار زبانوں اردو، عربی، انگریزی اور فرانسیسی میں بھی دستیاب ہے۔
آج جس موضوع پر گفتگو کرنا ہے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: گفتگو کا پہلا حصہ، امام خمینی کے آثار کے ترجمے سے متعلق ہوگا اور دوسرا حصہ، فرانس اور فرانسیسی زبان بولنے والے ممالک اور علاقہ جات میں موجود ان مراکز اور اداروں سے تعلقات اور روابط کے قیام کے بارے میں گفتگو پر محیط ہوگا جو ہمارے ادارے کے ساتھ کسی نہ کسی طرح مربوط ہوتے ہیں اور گفتگو کا تیسرا مرحلہ، انفارمیشن کا طریقہ کار اور مخاطبین کو جذب کرنے اور ان سے روابط قائم کرنے سے متعلق ہوگا۔
گفتگو کے پہلے حصے کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہےکہ اب تک امام خمینی کے آثار کو دنیا کی تقریبا 26 یا 27 زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے اور تقریبا 30 جلد کتابوں کا ترجمہ فرانسیسی میں بھی ہوچکا ہے۔
البتہ اس ضمن میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا ابھی باقی ہے؛ نیز ترجمہ شدہ کتابوں کی تصحیح بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس ضمن میں ہمیں فرنچ زبان سے واقف افراد کی ضرورت ہے جو فارسی زبان پر تسلط رکھتے ہوں؛ کیا اس حوالے سے آپ ہمیں، افراد کی نشاندہی کرسکتے ہیں؟ شکریہ
رچرڈ: سب سے پہلے تو یہ بات خوش آئند ہےکہ آپ کی طرح ایرانی خواتین کافی حد تک سماج میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں اور میں امام خمینی کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ امام خمینی میرے لئے بہت قابل احترام شخصیت ہیں، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے، اس کا جواب یہ ہےکہ امام خمینی کے آثار کا ترجمہ اپنی جگہ بہت بہترین کام ہے لیکن اس سلسلے میں جس بات کا خیال رکھنا چاہئے، وہ کتاب کا موضوع ہے؛ آپ کو امام خمینی کی بہت طویل اور متخصص کتابوں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور فرانسیسی زبان بولنے والے لوگوں کےلئے دلچسپ موضوعات کا انتخاب کرنا چاہئے۔
رپورٹر: کیا آپ کچھ نمونے ہمیں بتا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر امام خمینی کے افکار میں آزادی کا مقام، امام خمینی کی نظر میں سماج میں خواتین اور ...؟
رچرڈ: دیکھئے، پہلی بات تو یہ ہےکہ پہلے مرحلے میں چھوٹی چھوٹی کتابوں کے ترجمے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ قارئین کو کتاب کے مطالعے سے تھکن کا احساس نہ ہو۔ کتاب ایسی نہ ہو جو 300، 400 صفحوں پر مشتمل ہو، حجم کے اعتبار سے کتاب کو 100 صفحوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہےکہ مثال کے طور پر " امام خمینی نگاہ میں خواتین " فرانسیسی قارئین کےلئے مفید موضوع نہیں ہے، اگرچہ ممکن ہےکہ فرانس کی مسلم کمیونٹی کےلئے یہ موضوع کسی حد تک دلچسپ ہو تاہم دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے فرانسوی لوگوں کےلئے یہ موضوع دلچسپ نہیں ہوسکتا اس کی وجہ یہ کہ فرانسوی خواتین کا معیار زندگی، ایرانی خواتین اور مسلمان عورت کے معیار اور طرز زندگی سے بالکل مختلف ہے اسی لئے فرانسوی خواتین حجاب اور دوسری چیزوں کے بارے میں آپ کی باتوں کو درک نہیں کرسکتی، کیونکہ ایک فرانسوی خاتون جو حجاب کے فلسفے سے ہرگز آگاہ نہیں اور اس پر کاربند بھی نہیں، کے سامنے اس طرح کے موضوع پر بات کرنا کبھی بھی دلچسپ نہیں ہوسکتا لہذا سب سے پہلے مرحلے میں کتاب کے موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رپورٹر: موضوعات کے حوالے سے آپ کی تجاویز کیا ہوسکتی ہیں؟
رچرڈ: آپ کو ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہئے جو ایران اور فرانس کی مشترکہ ثقافت میں پائے جاتے ہوں، مثال کے طور پر فرانس میں " استقلال " کے موضوع کو بہت اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آپ کے یہاں بھی بالکل ایسا ہی ہے؛ یہی وجہ ہےکہ امام خمینی نے ایران کے استقلال کےلئے میدان میں قدم رکھا، لہذا یہ موضوع بہت دلچسپ ہوسکتا ہے؛ یا اسکے علاوہ ثقافتی اختلافات؛ آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ فرانسیسی لوگ اپنی ثقافت کا دوسری ثقافتوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اختلافاتی نکات پر بہت توجہ دیتے ہیں اور آپ کے ہاں بھی یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے؛ آپ کی ثقافت، دیگر مسلم معاشروں سے مختلف ہے۔ آپ مسلمان ہونے کے ساتھ آزاد بھی ہیں جبکہ سعودی عرب جیسے ملک کی عوام، مسلمان تو ہیں لیکن انہیں آزادی حاصل نہیں، اسلامی مباحث کے علاوہ ایرانی کلچر بہت اچھا ہے، لہذا اگر آپ اس بات کے خواہاں ہیں کہ آپ کے مخاطبین، مختلف طبقات کے لوگ پر مشتمل ہوں تو ایسے موضوعات پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہےکہ جو فرانس کے لوگوں کے مزاج سے آشنا ہوں لیکن اگر آپ فرانس کی مسلم یا بطور خاص شیعہ کمیونٹی سے رابطہ رکھنے کے خواہاں ہے تو ایسی صورت میں فلسفی ابحاث کو بھی پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
رپورٹر: شکریہ۔ اب آتے ہیں دوسرے موضوع کی طرف، وہ یہ ہےکہ فرانس میں موجود اسلامی تنظیموں اور اداروں سے روابط کا قیام، اس حوالے سے مجھے ایک سوال آپ سے پوچھنا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہےکہ ہمیں وہاں کے تمام مراکز کی شناخت کے بعد ان کے ساتھ مذاکرات کےلئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمیں کالجز اور لائبریریوں کے ساتھ بھی تعلقات اور روابط برقرار کرنا ہے۔
رچرڈ: ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟
رپورٹر: لائبریریوں کے ساتھ روابط کے قیام کا مقصد، امام خمینی کے آثار کو وہاں تک پہنچانا ہے اور کالجز سے روابط کا مقصد، ان تھیسیز تک رسائی حاصل کرنا مقصود ہے جو امام خمینی اور انقلاب اسلامی سے متعلق تحریر کی گئی ہیں اور اسلامی مراکز سے ارتباط کا مقصد یہ ہےکہ جو لوگ امام خمینی اور انقلاب اسلامی سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ ان مراکز کے ذریعے ہم سے با آسانی رابطہ برقرار کرسکیں۔
رچرڈ: یہ بہت اچھا اقدام ہےکہ فرانس کی لائبریریوں میں امام خمینی کے آثار موجود ہوں تاہم اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہےکہ اگر وہاں کی یونیورسٹیوں میں کوئی تھیسیز یا مضمون موجود ہو تو وہ منفی نقطہ نگاہ سے تحریر کیا گیا ہوگا لہذا اس بات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رپورٹر: جی ہاں! ہم، منفی آثار پر مشتمل مقالات اور علمی تھیسیز کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں۔
رچرڈ: یہ بھی آپ کا بہت اچھا عمل ہےکہ اپنے سلسلے میں منفی نکات کے بارے میں بھی آپ کو علم ہو، اگر انسان ہمیشہ تعریف کا خوگر ہوجائے تو ترقی نہیں کرسکتا، لہذا منفی نکات کے تنقیدی نظریات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا جواب دیا جاسکے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ میرے بہت سے ایسے دوست ہیں جو ایسے مراکز کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو آپ کے ادارے کی سرگرمیوں کےلئے معاون اور مددگار ثابت ہوسکیں۔ میں ان کا تعارف کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا، آپ بذریعہ ایمیل مجھ سے رابطے میں رہیں۔
رپورٹر: جی ضرور؛ اور آخری موضوع کے بارے میں آپ کا موقف معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ ہم کیسے اپنے مخاطبین تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور ان کے ساتھ کس طریقے سے روابط قائم کرسکتے ہیں اور روابط کے قیام کی صورت میں اس کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟
رچرڈ: اس سلسلے میں بعض طبقے کے لوگ جیسے شیعہ حضرات، کیونکہ امام خمینی سے محبت کرتے ہیں اور ان کے مداح ہیں، آپ کی ویب سائٹ پر آتے ہیں، آپ کے مخاطب قرار پاسکتے ہیں اور انہی لوگوں کے اداروں اور مراکز کے توسط سے آپ، اپنا تعارف کرسکتے ہیں اور اپنی ویب سائٹ کا ایڈرس انہیں دےکر اپنی ویب سائٹ کے بارے میں تبلیغات کرسکتے ہیں۔ البتہ اس بات پر توجہ رہے کہ ان کا طرز تفکر آپ سے مختلف نہ ہو۔
ماضی میں، میں صحافت کے شعبے سے وابستہ رہا ہوں میں بعض ایسی ویب سائٹ اور میگزین جس میں آپ اپنی تبلیغی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں، کا تعارف کروں گا۔ نیز میری اپنی ویب سائٹ میں ایک الیکٹرانک مجلہ ہے جس میں آپ کی تبلیغات کو شائع کروں گا لیکن یہ بات یاد رہےکہ فرانس میں سنسر شپ بہت زیادہ ہے اور ہر کوئی اپنے من پسند طریقے سے سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتا اس لئے اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہےکہ میری طرح اسے بھی رخصت کا پروانہ دےکر فارغ کردیں۔
رپورٹر: آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے تفصیل کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ہمارے اختیار میں دے دیا؛ میں بذریعہ ایمیل، آپ سے رابطے میں رہوں گی۔ شکریہ
اسلامی جمہوریہ ایران، تہران؛ فاطمہ رخشان لو / پیر 22 مئی 2017ء