کلامی تفسیر سے مراد وہ تفسیر ہے جس میں مفسر زیادہ تر ایسے عقائد کا دفاع کرتا ہے جن کا کسی خاص فقہ یا مذہب سے تعلق ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر، اس رجحان میں مفسر کو اس بات کا خاص اشتیاق ہوتا ہے کہ آیات کی مناسبت سے کلامی ابحاث پیش کرے یا مخالفین کے عقائد پر تنقید کرے یا دوسروں کے عقائد کے بارے میں اپنے رد عمل کا اظہار کرے۔
ایسا رجحان رکھنے والے مفسر عموماً مذہبی اختلافات کو زیر بحث لانے اور اپنے مخالفین پر یلغار کی مہارت رکھتے ہیں ، بلکہ بعض تو اس سے آگے بڑھ کر مخالفین پر کفر کے فتوے دیتے ہیں اور ان پر ناجائز الزامات لگاتے ہیں جن کی کوئی علمی دلیل وبرہان نہیں ہوتی ہے اور اس سلسلے میں وہ مخالفین کی کتابوں اور بالواسطہ منابع ومآخذ کو پیش کرتے ہیں ۔ اس رجحان کا روشن وواضح نمونہ فخر الدین رازی کی کتاب ’’مفاتیح الغیب‘‘ اور آلوسی کی کتاب ’’روح المعانی‘‘ ہے۔
البتہ کلامی تفسیر کی ایک اور قسم بھی دکھائی دیتی ہے جس میں اپنے عقیدے ونظریے کو لطیف وخفیف انداز میں ثابت کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے مفسرین کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ اپنے عقائد کو بغیر کسی تعصب اور بے جا نا انصافی سے پیش کیا جائے ہر چند مولف کے مفروضات اور عقائد لا محالہ خاص عقیدے کی جانب اس کے رجحان کے سلسلے میں براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ۔
امام خمینی (ره)تفسیر میں اس قسم کے کلامی رجحان کے حامل نہیں ہیں ۔ البتہ انہوں نے بعض کتب جیسے ’’کشف اسرار‘‘ میں دوسروں کے اعتراضات کے جوابات کو دوسرے قسم کے کلامی اسلوب میں پیش کیا ہے، مثال کے طورپر اس عقیدے پر تنقید کرتے ہیں کہ پیغمبر مادی میراث چھوڑ کر نہیں جاتے۔ پس فدک حضرت زہراء (س) کی ملکیت نہیں ہے! امام خمینی (ره)یہاں سورۂ نمل کی آیت نمبر ۱۶ { وَوَرِثَ سُلَیْمانُ داوُودَ} کے حوالے کے ساتھ فرماتے ہیں :
جس طرح حضرت سلیمان (ع) نے حضرت داوود (ع) سے ملک میراث میں پایا ویسے ہی حضرت زہراء (س) رسول اکرم ﷺ کی وارث ہوسکتی ہیں یا امامت ونبوت کے یکساں ہونے کے بارے میں امام خمینی (ره)سورۂ شعراء آیت ؍۱۱۴ { وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الأَقْرَبِیْن} کے شأن نزول کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا ان لوگوں کے جواب میں کہ جو تربت امام حسین (ع) پر سجدے کو ناجائز وشرک سمجھتے ہیں سورۂ حج کی ۷۷ آیت { اِرْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبدُوا رَبَّکُم } پیش کرتے ہیں اور اس آیت کی وضاحت کرتے ہیں ۔
اور مفوّضہ پر تنقید کرتے ہوئے سورۂ حج کی ۷۳ اور ۷۴ آیت { یٰا أَیہَا النٰاسُ ضُرِبَ مَثَل} اور آیت { مٰا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہ } پیش کرتے ہیں اور ثنویت پر تنقید کی دلیل وبرہان بیان کرتے ہیں اور برہان تمانع اور آیت { لَوکانَ فِیْہِمٰا آلِہَۃٌ اِلاّٰ اﷲُ لَفَسَدَتٰا} (انبیاء ؍۲۲) کی تفسیر پیش کرتے ہیں ۔ تفسیر آیات کے ساتھ استدلال کا یہ انداز اور آیت { یُضِلُّ مَنْ یَشآئُ وَیَہْدِي مَنْ یَشٰآئ}(نحل ؍۹۳) کی مناسب سے ان کے درمیان جمع اور طلب وارادہ اور جبر وتفویض سے متعلق شبہات واعتراض کے جواب میں پیش کی جانے والی ایسی بہت سی آیات امام خمینی (ره) کی کتاب ’’رسالہ طلب وارادہ‘‘ میں نظر آتی ہیں یا مثلاً آپ نے اہل بیت اطہار (ع) کے دفاع اور ان کے علمی مقام کی نشاندہی اور وحی کے مقام کے ساتھ ان کے رابطہ واتصال اور ان کی فضیلت کے دلائل سورۂ والنجم کی آیت سوم وچہارم کی تفسیر میں پیش کئے ہیں ۔
امام خمینی (ره)کی مختلف اصولی وکلامی کتب میں اس نوعیت کی ابحاث پیش کی گئی ہیں اور زیر نظر تفسیر میں قرآنی ترتیب کے مطابق ان آیات کی تفسیر سے متعلق بحثیں نئی شکل میں پیش کی گئی ہیں ۔ مجموعی طورپر ان کی تالیفات میں کلامی رنگ بہت کم پایا جاتا ہے۔ البتہ اگر امام خمینی (ره) تفسیر قرآن کا ایک دورۂ تالیف کرتے تو بہتر انداز میں ہم فیصلہ کرسکتے لیکن اب ہمارے پاس امام خمینی (ره)کی صرف یہی تفسیری ابحاث ہیں اور آپ کا وہ کلام ہے جس میں آپ نے قرآن سے استناد کیا ہے۔