امام خمینی(رح):" سیدالشهداء امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کا آغاز سماج میں عدالت کے قیام سے کیا ہے"۔
عاشورا، ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک ثقافت کا نام ہے، جس کا سرچشمہ حقیقی اسلام ہے جس نے اسلام کی جڑوں اور شاخوں کو مضبوط بنانے اور اس کے رشد و نمو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس عظیم قیام کی وجوہات اور اسباب کو خود امام حسین علیہ السلام کے کلام میں تلاش کرنے سے انسان کے قلب و روح کو طراوت اور کمال بصیرت حاصل ہوتا ہے:
۱/- مکہ مکرمہ میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے دوران، دین اور مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت سے متعلق علماء، دانشوروں اور عمائدین کے وظایف کو بیان کرتے ہوئے، بنی امیہ کے خلاف خاموشی کے سنگین نتائج پر ان کی شدید مذمت کی ہے اور بنی امیہ کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعاون اور سمجھوتے کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا ہے۔
۲/- امام حسین علیہ السلام نے محمّد بن حنفيّہ کے نام لکھے گئے اپنے وصیت نامہ میں قیام کے مقصد کو یوں بیان کیا ہے:
" میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ میری روانگی کا مقصد یہ ہےکہ اپنے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں اور امر بالمعروف، نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں"۔
۳/- امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کی اعلی شخصیات کی دعوت کے جواب میں، اپنے قیام کے فلسفہ کا اظہار خیال اس طرح کیا ہے:
" مجھے میری جان کی قسم، امام صرف وہی ہوسکتا ہے جو کتاب خدا کا عالم، عدل و انصاف کا جاری کرنے والا، حق پر عمل کرنے والا اور اپنی تمام تلاش، راہ خدا میں انجام دینے والا ہو"۔
۴/- حسين بن علی علیہما السلام نے بصرہ کے بزرگوں کے نام ایک خط میں، اپنی تحریک کے مقصد کو یوں بیان فرمایا ہے:
" میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر عمل کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ سنت نبویہ نابود ہوچکی ہے اور بدعتیں زندہ ہوچکی ہیں"۔
۵/- « بَيْضَه » کے مقام پر جب امام حسین علیہ السلام کا حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے سامنا ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب اور حر ریاحی کو مخاطب کرکے جو خطبہ دیا ہے اس میں اپنے قیام کے مقصد کے بارے میں یوں اعلان کیا ہے:
" اے لوگو جان لو، انہوں نے شیطان کی اطاعت کو اپنے لیے لازمی قرار دیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے اور فتنہ و فساد برپا کیا ہے اور خدا کے قوانین کو معطل کردیا ہے اور مسلمانوں کے اموال کو غصب کر لیا ہے اور خدا کی طرف سے حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دے دیا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ میرا حق بنتا ہےکہ میں ان ظالم حکمرانوں کی مخالفت کروں"۔
۶/- آپ « ذو حُسَم » کے مقام پر اپنی تحریک اور قیام کی توجیہ میں اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا۔ پس اس صورتحال میں مومن کو چاہیے کہ اللہ سے ملاقات کی تمنا کرے۔ ایسے میں، میں موت کو اپنے لئے سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا، مجھے ہرگز گوارا نہیں"۔
دوسری جگہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
" خدا کی قسم ذلت کا ہاتھ تمھارے ہاتھوں میں نہیں رکھوں گا اور غلاموں کی طرح راہ فرار اختیار نہیں کروں گا۔
التماس دعا
http://www.astaan.ir/ سے اقتباس