حسین منی و انا من حسین

حسین منی و انا من حسین

محمد (ص) کی آواز " قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا "، حسین بن علی(ع) کی صدا سے ممزوج، دشت کربلا میں گونجی۔

محمد (ص) کی آواز " قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا "، حسین بن علی(ع) کی صدا سے ممزوج، دشت کربلا میں گونجی۔

روز عاشورا، محرم کا دسواں دن ہے جو اہل تشیع کے ہاں سنہ 61 ہجری قمری میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی وجہ سے مشہور و محترم ہے۔ اس دن کوفہ والوں کے ہاتھوں کربلا کی سرزمین پر امام حسین(ع) اور ان کے اعوان و انصار کی المناک شہادت واقع ہوئی جس کی قیادت کوفہ میں یزید بن معاویہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کر رہے تھے۔

امام حسین(ع) کی شہادت کی یاد شیعہ حلقوں میں خاص طور پر تاسوعا اور عاشورا کو غم و اندوہ میں پر جوش انداز سے اور منائی جاتی ہے اور مصائب بیان کئے جاتے ہیں؛ حتی کہ اہل سنت برادران سمیت، شیعہ معاشروں میں رہنے والے، دیگر ادیان و مذاہب کے پیروکار بھی ان آداب و مراسمات سے متاثر ہوتے ہیں۔

یہ اعتقاد کہ عزاداری کے سالانہ مراسمات اور امام حسین(ع) کے مصائب اور شہادت کی مجالس میں شرکت اخروی فلاح کا سبب ہے، بہت سے مراسمات عزاداری میں شرکت کےلئے دوہرے محرکات کا سبب بنتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: " انا من حسین" یعنی دین و دیانت کا تحفظ امام حسین(ع) ہی کریں گے اور اس قربانی نے اسلام کی دیانت کو اب تک محفوظ رکھا ہے اور ہمیں اس کا تحفظ کرنا چاہئے اور بعض لوگوں کے فریب میں آنے والے یہ نوجوان، اس حقیقت سے غافل ہیں۔

صحیفہ امام، ج۱۰، ص۱۲۰

روز عاشور، وہ دن ہےکہ جس میں اسلام کو نئی حیات ملی؛ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی وحیانی آواز " قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا "، نواسے رسول حسین بن علی علیہما السلام نے پھر سے برتر آواز کے ساتھ دشت کربلا میں مشرک نام نہاد مسلمانوں [ یزیدیوں ] کے اجتماع میں بلند کی اور اس راہ میں جان و مال و عیال، اللہ رب العزت کے آستان میں مخلصانہ پیش کیے۔

آج جو دین، ہم کو نظر آ رہا ہے، ہم جو نمازیں پڑھ رہے ہیں، روزہ رکھ رہے ہیں، یہ دین چلا گیا ہوتا اگر ہمارے پیارے رسول (ص) کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے گھر کو لٹا کر اسلام نا بچایا ہوتا اور گھرانا بھی ایسا جو وارث قرآن ہو وارث دین ہو۔

امام حسین(ع) نے دین پر اپنا سب کچھ لٹا کر یہ واضع کردیا کہ دین کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ لٹایا جاسکتا ہے، دین پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے، پھر دین کو کسی بھی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔

اقتدار پر بیٹھنے والا یزید آستین کا سانپ بن گیا تھا اور اپنی نفسانی خواہشات کی خاطر دین میں تبدیلی کر رہا تھا، شراب اور زنا کو عام کر رہا تھا تو شیر حق کے شیر نے یزیدیت کے اس خواب کو خاک میں ملا دیا اور اتنی بڑی قربانی دی کہ عاشور کی باقی ساری اہمیتیں پیچھے رہ گئیں اور اب اگر کسی کو عاشور، یاد آتا ہے تو صرف سید الشہدا (ع) کے حوالے سے ہے، کیوں نہ ان کے ہی نام سے یہ دن مخصوص ہو کہ آپ (ع) نے اپنے نانا کا وعدہ ایسے پورا کیا کہ ننھے سے علی اصغر (ع) کی بھی قربانی دی اور بی بی زینب کبری(س) و بی بی ام کلثوم (س) کے پردے کی بھی اور ایسے ہی تو ہوتے ہیں محمد، رسول خدا (ص) کے گھرانے والے۔ باقی یزیدیت تو آج بھی عمل پیرا ہے اور جد و جہد کر رہی ہے حق کے خلاف اور عاشور کی دیگر اہمیتیں بیان کرنا اور اصل واقعہ جو بلاواسطہ اسلام سے منسلک ہے اس کو بیان نا کرنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

عاشور کے روزے کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں سوائے اس بات کی کہ ایک روایت کے مطابق، یزید کی ماں نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا کامیاب ہوا اور امام حسین(ع) قتل ہوگئے تو میں ہر سال اس دن کا روزہ رکھا کروں گی! اور آج تک اس کی سنت پر عمل کیا جاتا ہے اور ضعیف و خود ساختہ روایتوں کا سہارہ لے کر، یزید کی ماں کے اس عمل کو سنت کا درجہ دے کر، سید الشہداء امام حسین (ع) کے قتل پر جو یزیدیوں کو تسکین ہوئی تھی اس کا اظہار، آج تک کیا جاتا ہے۔

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ہم جو یہ کہتے ہیں: " یا لیتنا کنا معک" اس کے معنی یہ ہیں کہ شہدائے کربلا کے قدم پر قدم رکھیں اور اپنے آپ کو عاشورا کی تعلیمات اور پیغامات سے ہماہنگ کریں جس کےلئے شہدائے کربلا، شہید ہوئے ہیں۔

 

التماس دعا

ای میل کریں